تاریخ پھر بھی مسکرائے گی جس طرح وہ آج ضیاء الحق، بھٹو، مشرف اور میاں نوازشریف پر مسکراتی ہے۔ ’’کچھ لوگ‘‘ جب بے نظیر سے اُکتا جاتے تو میاں صاحب آجاتے۔ میاں صاحب ڈکٹیشن لینے سے انکار کرتے تو بی بی لانگ مارچ کی دھمکی دے ڈالتیں۔ جب کوئی کہتا ہے کہ خان کا جانا ٹھہر گیا تو جواب آتا ہے ’’آپ کے پاس چوائس کوئی نہیں‘‘۔ ایک پنڈت جن کا رومانس سکرپٹ رائٹرز سے چلتا رہتا ہے۔ کہنے لگے ’’چوائس ہمیشہ موجود ہوتی ہے‘‘۔ ورنہ وہ خان کو ہیوی مینڈیٹ نہ دلادیتے۔ وہ کیا کسی شاعر نے کہا ہے کہ ایک تو دھوپ تھی موم کے مکانوں پر … اور اس پر تم لے آئے سائباں شیشے کا۔موجودہ حکومت کو اقتدار میں لانے والوں کو اتنی جلدی تھی کہ متضاد فیکٹرز ایک ہی پٹاری میں بند کردیئے گئے۔ فواد چودھری اگر پنجاب کے خادم اعلیٰ پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو خان کے لیے دروازے کھولنے والے بھی زیر لب بڑبڑا رہے ہیں۔ ایک نجی گفتگو میں ایک پنڈت سے چھوٹے میاں صاحب نے کہا کہ وہ اتنی غلطیاں کیوں کر رہا ہے تو پنڈت نے سگار کی راکھ جھاڑتے ہوئے کہا ’’وہ جبلت کا آدمی ہے، اس کی طبع اسے جدھر دھکیل دے‘‘۔ پھر خان کا ایک مشیر کسی پنڈت سے بولا ’’فلاں اس کے مزاج پر سوار ہے‘‘۔ پنڈت نے مسکرا کر کہا ’’زیادہ دن نہیں رہے گا‘‘۔ وہ کسی کو خود پر زیادہ دیر سوار نہیں رہنے دیتا۔ جب جہانگیر ترین سے پوچھا گیا کہ آپ آئوٹ کیسے ہوئے؟ وہ صرف مسکرا کر رہ گئے۔ جہانگرین ترین نے خیبرپختونخواہ سے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو اسلام آباد لا کر پرنسپل سیکرٹری بنوادیا۔ جب بی بی کو فاروق لغاری نے وزیراعظم ہائوس سے باہر کی راہ دکھائی تو اگلے دن بی بی کا ایک بیان اخباروں کی شہ سرخی کی زینت تھا ’’میں حضرت علیؓ کا فرمان بھول گئی تھی … جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو‘‘۔ اعظم خان پہلے پرویز خٹک سے قریب تھے … پھر جہانگیر ترین اور اب عمران خان۔ جہانگیر ترین تمام اتحادیوں سے مذاکرات کرتے تھے، انہیں راضی رکھتے تھے … خان کے ساتھ الائنس کی شرائط طے کرتے تھے۔ ایسے میں چودھریوں سے معاہدہ جو ہوا خان کا‘ اس میں جہانگیر ترین بنیادی کردار تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے دھرنا دیا۔ کس کے کہنے پر؟ یہ بات ہمیشہ راز رہے گی۔ فضل الرحمن نے کہا کہ چودھریوں نے کچھ یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ چودھریوں نے صاف انکار کردیا۔ جب معاہدے کی شرائط پر مذاکرات چل رہے تھے تو یکایک جہانگیر ترین کو مذاکرات سے بے دخل کرکے شفقت محمود کو آگے بڑھا دیا گیا۔ یہ سب کیا تھا؟ دراڑیں پڑ رہی تھیں … جہانگیر ترین اور خان کے درمیان اور اس پل کو توڑنے میں نمایاں کردار تھے … اعظم خان … اسد عمر … شاہ محمود اور کچھ مشیر۔ چینی بحران میں صرف نو کمپنیوں کا آڈٹ کرایا گیا۔ ترین کو شکوہ تھا کہ میاں منیر، خسرو بختیار، دریشک گروپ ، مونس الٰہی اور دیگر کو Untouchable سمجھا گیا۔ جن نو شوگر ملوں کا آڈٹ ہو اوہ ترین اور ان کے قریب والوں کی تھیں۔ آڈٹ کے وقت ملوں کے سٹاف سے حسن سلوک بھی فرمایا گیا۔ مگر ترین کو اندازہ تھا کہ یہ سب پارٹ آف گیم ہوتا ہے۔ ترین کے مخالف اسے پاور کی غلام گردشوں سے باہر کا راستہ دکھا رہے تھے۔ مگر وہ یہ ہرگز نہ جانتے تھے کہ ترین کا خلا کوئی بھی پُر کرے وہ ترین نہیں بن سکتا۔ کیوں؟ کیونکہ ترین جو بھی کام سرانجام دیتا ہے اس کی ایک اپنی مہارت ہے۔ نتیجہ؟ بلوچستان کے اتحادی چلے گئے۔ چودھریوں نے ووٹ تو دے دیا مگر اگر اور مگر کے ساتھ۔ بجٹ کی منظوری کے بعد یہ اگر اور مگر بڑھنے لگیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ بقول پروین شاکر … بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا … میں سمندر دیکھتی ہوں تم کنارہ دیکھنا۔ جہانگیر ترین کے مخالفین سمجھ رہے تھے کہ ترین صاحب نے اپنے سارے انڈے خان کی ٹوکری میں رکھے ہوئے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ سب کو پتا ہے کہ ترین انگلینڈ چلے گئے۔ مگر کیونکر اور کیسے گئے؟ یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ وہ جس ایئربیس سے گئے وہاں سے خان صاحب زلفی بخاری کے ساتھ ٹیک آف کرنے لگے تھے تو دو گھنٹے تک لے دے ہوتی رہے تھی۔ جب ترین صاحب گئے تو کسی بھی قسم کی نہ ’’لے‘‘ ہوئی نہ ’’دے‘‘۔ کیوں؟ترین کے مخالف سمجھتے ہیں کہ وہ پاور پلے سے آئوٹ ہوگئے۔ مگر یہ احمقانہ لائن ہے۔ جہانگیر ترین نے اپنے باقی انڈے جس ٹوکری میں رکھے تھے اب ان انڈوں میں حرکت اور برکت پید اہونے لگی ہے۔ یہ انڈے اب اگلی چوائس پر بچے دینے کے لیے بے چین بھی ہیں اور بے قرار بھی۔ سیاست میں کبھی ایک آپشن اور چوائس نہیں ہوتا۔ اٹالین صحافی اوریانا فلاچی نے بھٹو صاحب سے پوچھا ایک سیاستدان کو کیسا ہونا چاہیے؟ ’’وہ چیل کے گھونسلے سے، چیل کے نیچے سے انڈے اٹھا لائے اور چیل کو خبر تک نہ ہو‘‘۔ بھٹو صاحب نے جواب دیا۔ جہانگیر ترین کے ان سب سے رابطے ہیںجنہیں وہ گلے میں پارٹی کا نشان ڈال کر تحریک انصاف میں لائے تھے۔ اس کے علاوہ ق لیگ، ن لیگ اور وہ بھی جو نہ پارٹی بناتے ہیں اور نہ الیکشن لڑتے ہیں مگر سیاست خوب کرتے ہیں۔ مگر ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ قاف نون پر اعتبار نہیں کرتی۔ چودھریوں کا کہنا ہے کہ ایک مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ ہم مومن ہوں نہ ہوں ہم ایک ہی سوراخ سے کم از کم سترہ بار ڈسے جاچکے ہیں۔ مگر اس بار نہیں۔ چودھری ’’ٹھوس ضمانت‘‘ چاہتے ہیں اس بار بھی نہ ڈسے جانے کے لیے۔ جہانگیر ترین شاید اس ضمانت کے کاغذات تیار کروا رہے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید… لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا۔ آج کل یہ شعر جہانگیر ترین ہی کو نہیں علیم خان کو بھی بہت پسند ہے۔