مکرمی! ہم ہر وقت پولیس کے رویے، رشوت خوری اور بد اخلاقی کو مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں جب کہ کچھ ایسے حقائق بھی ہیں جن سے ہم آنکھ چراتے ہیں اور ان حقائق کو با لائے طاق رکھ کر پولیس کو برا بھلا کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ تھانہ کلچر کی بنیادی وجہ جو پاکستان کے ہر علاقے میں عام ہے وہ جھوٹی درخواستیں اور جھوٹے مقدمات کا اندراج ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے جھوٹی ایف آئی آرز درج کروائی جاتی ہیں جن سے نہ صرف عدالتوں پر بوجھ پڑتا ہے بلکہ سرکاری اخراجات کا بھی ضیاع ہوتا ہے۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ لوگ دشمنی میں اس قدر گر جاتے ہیں کہ جھوٹی ایف آئی آر میں 7یا 8سال کے بچوں کے نام شامل کروا دیتے ہیں اور بدنام پولیس ہوتی ہے کہ پولیس نے چھوٹے بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ ملک میں کوئی نا گہانی آفت ہو، سیلاب ہو، روڈ ایکسیڈینٹ ہوپولیس کے جوان خدمت میں پیش پیش ہوں گے ۔ اگر ہم پولیس کو میسر سہولیات پر نظر دوڑائیں تو وہ نا کافی ہیں۔ جرائم میں کمی لائی جا سکتی ہے جب عوام اور پولیس میں فاصلے کم ہوں گے یقننا جرائم میں بھی کمی ہو گی۔ امید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کے وژن کے مطابق موجودہ آئی جی پنجاب پولیس اور عوام کے درمیان اس فاصلے کو کم کرنے میں کامیاب ہوں گے اور پولیس ملازمین اور افسران کو در پیش مسائل کیلئے بھی کوئی مربوط پالیسی وضع کریں گے۔ ( ذیشان حیدر سرگودھا)