محمد جعفر، جس نے زٹلّی جیسا مضحکہ خیز تخلص اختیار کیا۔ اسی رعایت سے اپنے دیوان کا نام ’’زٹل نامہ‘‘ رکھا۔ زٹل، جس کے معنی جھوٹ، لغویات، پھکڑ وغیرہ کے ہیں۔ شاید اسی بنا پر اسے محض ہجو گو اور فحش نگار سمجھ کر نظر انداز کیا گیا۔ حالانکہ وہ نہ صرف نظم و نثر دونوںمیں اُردو کا پہلا باقاعدہ صحافی اور مزاح نگار تھا بلکہ اگر اس کے کلام سے پوچ گوئی کو الگ بھی کر دیا جائے تو نہ صرف طنز و مزاح اور ضرب الامثال کی بہتر مثالیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر: تِریا چتر جانے نہیں کوئے، خصم مار کے ستی ہوئے…گوشتِ خَر ودندانِ سگ…پاپی کا مال پراپت جائے، ڈنڈ پڑے یا چور لے جائے… چوہا بِل میں سمائے نہیں اور کانوں باندھے چھاج… ڈوم، بنیا، پوستی، تینوں بے ایمان… گدھوں کا کھایا کھیت، نہ پاپ نہ پُن… راجا چھوڑی ناگری، جس بھائے تِس لے…پانسا پڑے سو داؤ، راجا کرے سو نیاؤ… کھاویں پیویں محمود کے اور انڈے دیویں مسعود کے۔ اُردو مزاح میں انوکھے اور مضحک کردار تراشنے کاآغاز بھی جعفر سے ہوا۔ چند کرداروں کے نام دیکھیے: کھڑکی کھول خاں،شیخ روٹی توڑ ولد مفت خور، نمک حرام نمک، لالہ تہمت رام، پرنالا سنگھ، پھٹکار چند، خرِ بے سُم، سگِ بے دُم وغیرہ آمریت کے زمانے میں زٹلی جیسا تخلص رکھنے میں ایک مصلحت تو یہ تھی کہ کوئی سخت بات قلم یا منھ سے نکل جائے تو اس کی آڑ میں اپنا دفاع کیا جا سکے۔ جعفر زٹلی (1658۔ 1713) دہلی کے گاؤں نارنول (موجودہ ہریانہ) میں پیدا ہوئے۔ اورنگ زیب کے دور میں لکھنے کا آغاز کیا۔ ہم اسے ولی دکنی کا ہم عصر کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ جعفر اپنے زمانے کا شوخ مزاج شخص تھا، سخن وری کی بنیاد غزل سے زیادہ ہزل پر تھی لیکن اُردو مزاح میں بالخصوص اور اُردو ادب میں بالعموم اُس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ وہ خواص و عوام دونوں طبقوں میں مقبول تھا۔ عربی، فارسی اور ہندی پہ اسے عبور حاصل تھا۔ ان تین زبانوں سے شناسائی کے بغیر اس کے کلام کی مکمل تفہیم ممکن نہیں۔ اُس نے برِ صغیر کی مروّج زبانوں میں اُردو کے قدم مضبوط کرنے کی ہر ممکن سعی کی۔ جعفر اورنگ زیب کے بیٹے کام بخش کی فوج میں ملازم ہونے کی بنا پر دکن کے بعض معرکوں میں شامل رہا۔ اس کے دیوان میں چار نظمیں شہزادے سے متعلق ہیں، جن میں ایک نہایت فحش ہجو بھی ہے، جس کی پاداش میں وہ پہلے نوکری سے برخاست ہوا، پھر دکن بدر کر دیا گیا، لیکن جان بچ گئی۔ اس ہجو پہ اسے پشیمانی رہی۔ یاوہ گوئی، دشنام طرازی، دریدہ دہنی میں تو سمجھیں ان کی زبان کا ٹانکا ٹوٹا ہوا تھا۔ جو شخص جنسی اعضا کو دیدہ دلیری کے ساتھ بطور ردیف قافیہ استعمال کرتا ہو، بڑے ایوانوں میں جس کے فی البدیہہ کلام سے لرزہ طاری ہو، اُس کے بڑھے ہوئے حوصلوں سے کس رُو رعایت کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اورنگ زیب کی وفات کے بعد مغلیہ خاندان میں اقتدار کے لیے سانپ سیڑھی کا جو کھیل کھیلا گیا، اس سے سب واقف ہیں۔ 1713ء میںشہزادہ فرخ سیئر نے اقتدار سنبھا لا تو بے شمار امرا، وزرا کو بغاوت، شک یا دوسرے شہزادوں سے ہمدردی کی پاداش میں تسمہ کشی (یہ ایک خاص طرح کی پھانسی تھی کہ ملزم کے گلے میں تسمہ یعنی چمڑے کی پتلی ڈوری ڈال کر اس حد تک کھینچا جاتا کہ اس کی موت واقع ہو جائے۔) کے ذریعے مروایا۔ جعفر نے اپنے زمانے کے مطلق العنان بادشاہوں کے خلاف حق گوئی کاجو دبنگ انداز اپنایا، وہ انھی کا حصہ ہے۔ ’زٹل نامہ‘ کے مرتب جناب رشید حسن خاں لکھتے ہیں: ’’بگڑتے ہوئے سیاسی حالات، بے کاری، بدنظمی، افلاس؛ ان سب کے ہلکے گہرے بیانات اس کی شاعری میں محفوظ ہو گئے ہیں۔ وہ با اقتدار افراد، جن کے نکمے پن کے نتیجے میں یہ حالات پیدا ہو رہے تھے، ان کا نام لے کر اُن کو اس کا ذمہ دار کہنا؛ یہ صاف گوئی اور بے باکی بھی اسی شاعری کا حصہ رہی ہے۔ یہاں ہم کو یہ بات یاد رہنا چاہیے کہ اُس زمانے میں واقعتاً بات پر زبان کٹتی تھی؛ ایسے زمانے میں یہ بے باک بلند گفتاری داد کے قابل ہے۔‘‘ جعفر کی فحش گوئی اور منھ پھٹ اسلوب اپنے ارد گرد کی سیاسی و معاشرتی ابتری کے منھ پر طمانچہ ہے، اپنی طرز کا احتجاج ہے، دوغلے پن سے نفرت ہے۔ اقتدار پرستی کی اندھی دوڑ میں حد سے گزر جانے کی مذموم روایت سے شدید ناگواری ہے۔ معاشرے میں ہر جا پھیلی سماجی بے چینی و بے اختیاری کا ردِ عمل ہے۔ ایسے ہی جابرانہ ماحول میں جب فرخ سیئر نے اپنا سِکہ جاری کیا، جس پر یہ شعر مرقوم تھا: سِکّہ زد از فضلِ حق بر سیم و زر بادشاہِ بحر و بَر فرخ سیئر جس دَور میں اقتدار کے لیے بھائی بھائی کا دشمن ہوا پڑا تھا اور کسی کو اپنی بادشاہت کے اگلے لمحے کی خبر نہ تھی، ایسے میں’فضلِ حق‘ اور ’بادشاہِ بحر و بر‘ پرجعفر کی رگِ ظرافت و بغاوت پھڑکنا یقینی تھا، اُس نے اس تعلّی آمیز شعر کی یوں بھَداڑائی: سِکّہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر بادشاہِ تسمہ کش فرخ سیئر ایک شاعر کی ایسی جرأتِ رندانہ دیکھ بادشاہ کا پارہ ایسا چڑھا کہ اس نے جعفر کو بھی اسی تسمہ کشی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اُردو صحافت میں جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی پاداش میں جان سے گزر جانے کی یہ پہلی مثال ہے۔ اس کا نمونۂ کلام دیکھیے جو تین سو سال کے بعد بھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ حسبِ حال بھی ہے۔ جعفر کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ اس نے اُردو زبان سے بے تکلفی کا مظاہرہ کر کے اسے عوام کے لیے دل پسند اور آسان بنا دیا: بھوک گئے بھوجن ملے اور جاڑا گئے قبائے جوبن گئے تِریا ملے، تینوں دیو بہائے جعفر! بہ بوستانِ جہاں دَم غنیمت است شادی نصیب گر نہ شود، غم غنیمت است دَھن وتی کے کانٹا لگا دوڑے لوگ ہزار نِردھن گرا پہاڑ سے کوئی نہ پوچھے بات گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا ہے ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے ہنر مندان ہر جائی پھریں در در بہ رسوائی رَذَل قوموں کی بن آئی عجب یہ دَور آیا ہے جعفر کے ہاں غزل کی جگہ نظم کا راج ہے۔ ساتھ انوکھی نرالی نثر کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ برہنہ نویسی یہاں بھی عروج پر ہے۔ پھر بھی بچ بچا کے ’نسخۂ چورن‘ سے ایک اقتباس: ’’اُلّو کا پِتّا، مچھر کی جھانٹ، مینڈک کی کانچ، پرانی کھوپڑی کی چھاؤں، چیونٹی کا پوٹا، اونٹ کی پھریری، زنانے کا نخرہ، ہاتھی کا پانچواں پاؤں، چمگادڑ کی چربی، مکھی کا بھیجا، کھٹمل کا کلیجا، جونک کا انڈا، گاڑی کی چوں چوں، نقّارے کی دھوں دھوں… ان سب بستوؤں کو ملا کر، کھرل کرے اور ساتویں دن سات گولیاں بنا کر ننگی پیٹھ، نہار سر، باسی پاؤں کھائے، سر دُکھتا ہو تو سر نہ رہے، کمر دُکھتی ہو تو کمر نہ رہے۔‘‘