پاک فوج کے سابق سربراہ و سابق صدر مملکت جنرل(ر) پرویز مشرف گزشتہ روز دبئی کے نجی ہسپتال میں دوران علاج انتقال کر گئے۔صدر مملکت عارف علوی ، وزیر اعظم شہباز شریف اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے پرویز مشرف کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا ہے ، پرویز مشرف کیلئے مغفرت اور ورثاء کیلئے صبر و جمیل کی دعا کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور آرمی چیف نے پرویز مشرف کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں کچھ اچھے اقدامات بھی کئے جن میں بلدیاتی نظام بہت اچھا تھا، اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوئے ، انہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے بھی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔ ان تمام اقدامات کے باوجود ان کا جمہوری حکومت کا تختہ الٹنا بہت غلط اقدام تھا۔ ان کے دور میں محترمہ بینظیر بھٹو کی بھی شہادت ہوئی جسے پاکستان کے لوگ کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات اور سنگین غداری کیس میں عدالت عالیہ نے انہیں سزائے موت کا فیصلہ سنایا مگر حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد نہ کرا سکی تاہم وہ طبی موت کے باعث چل بسے۔ پرویز مشرف گیارہ اگست 1943 کو دہلی میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعد والدین کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے، پیٹرک ہائی سکول اور ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد مشرف الدین محکمہ خارجہ سے منسلک تھے۔ 1961ء میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا اور اسپیشل سروسز گروپ میں شمولیت اختیار کی۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھی حصہ لیا۔ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ سے گریجوایشن کی اور رائل کالج اور ڈیفنس اسٹڈیز برطانیہ سے بھی کورسز کئے۔ اپنے ملٹری کیرئیر میں پرویز مشرف نے کئی کمانڈز اور تربیتی سربراہ کے عہدوں پر کام کیا، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے اہم عہدے پر بھی فائز رہے۔ 7 اکتوبر 1998ء کو چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر فائز ہوئے، وہ پاک فوج کے 13 ویں آرمی چیف تھے۔ وسیب کے لئے بھی انہوں نے کچھ اقدامات کئے ، پی ٹی وی ملتان سنٹر ان کی یادگار ہے، اسی طرح وہ علیحدہ صوبے کے بھی حامی تھی مگر چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی راضی نہ ہوئے۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقدامات جو بہت متنازع رہے، ان میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ کو حوالگی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بے توقیری اور طویل نظر بندی ،پتنگ بازی اور مخلوط میراتھن ریس، جامعہ حفصہ اور لال مسجد پر فوجی آپریشن،حدود آرڈیننس میں ترمیم ، قومی مفاہمی آرڈیننس (این آر او)،بلوچستان آپریشن میں اکبر بگٹی کی ہلاکت، اسرائیل سے در پردہ روابط، اعتماد سازی کے نام پر بھارت سے دوستی اور ثقافتی روابط شامل ہیں۔ پرویز مشرف اپنے غیر معمولی فیصلوں اور متنازع اقدامات کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔ پرویز مشرف گارگل جنگ سے لے کر نواز حکومت کا تختہ الٹنے تک اور خود کو باوردی صدر بنوانے سے لے کر ملک سے باہر جانے تک ہنگامہ خیز زندگی میں ہمیشہ سرخیوں میں رہے۔ 12 اکتوبر 1999ء میں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو معطل کر کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل خواجہ ضیاء الدین کو نیا آرمی چیف مقرر کرنا چاہا تو اس وقت جنرل پرویز مشرف بیرون ملک سری لنکا کے سرکاری دورے پرتھے۔ پرویز مشرف ملک واپس آنے کے لئے ایک کمرشل طیارے پر سوار تھے ، اس وقت فوج کے اعلیٰ افسران نے ان کی برطرفی کو مسترد کر دیا۔ وطن پہنچ کر جنرل پرویز مشرف نے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی منتخب جمہوری حکومت کو معزول کر کے ایمرجنسی نافذ کر دی اور ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے اور اقتدار سنبھال لیا۔ 11 ستمبر 2001ء میں امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد 13 ستمبر 2001ء کو پاکستان میں امریکی سفیر ونڈی چیمبر لین کے ذریعے پرویز مشرف کے سامنے واشنگٹن نے سات مطالبات رکھے جنہیں پرویز مشرف نے فوری طور پر تسلیم کر لیا اور اس طرح پاکستان امریکی جنگ میں باقاعدہ طور پر شامل ہو گیا۔ راتوں رات تین دہائیوں پر مشتمل افغان پالیسی بھی تبدیل کر دی گئی۔ اس جنگ کے دوران پرویز مشرف نے امریکی ہدایات پر689 افراد کو گرفتار کیا جن میں سے 369 افراد بشمول خواتین کو امریکا کے حوالے کیا۔ جنرل پرویز مشرف اپنی یادداشت پر مبنی کتاب ’’In The line of Fireـ‘‘ میں اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے ان افراد کے عوض امریکا سے کئی ملین ڈالرز کے انعام وصول کئے، یہ جملہ بعد ازاں اردو ترجمہ سے حذف کر دیا گیا۔ پرویز مشرف کے گرفتار اور امریکی حوالے کئے جانیوالے افراد میں اکثریت ان عام افراد کی تھی جو افغانستان میں تعلیمی و فلاحی یا نجی کاموں سے گئے تھے جن کو امریکا نے گوانتاناموبے میں کئی برس تک بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد رہا کیا گیا۔ اکتوبر2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ق) نے قومی اسمبلی کی اکثر سیٹیں جیت لیں ، یہ جماعت اور جنرل (ر) پرویز مشرف ایک دوسرے کے زبردست حامی تھے۔ دسمبر 2003ء میں جنرل پرویز مشرف نے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ دسمبر 2004ء تک وردی اتار دیں گے لیکن انہوں نے اپنے اس وعدے کو پورا نہ کیا، اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اپنی حامی اکثریت سے قومی اسمبلی میں سترہوں ترمیم منظور کروالی جس کی رو سے انہیں پاکستان کے باوردی صدر ہونے کا قانونی جواز مل گیا۔ نومبر 2007ء کو انہوں نے ایک بار پھر آئین مخالف اقدامات کر کے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو معزول کر دیا جو بڑا تنازع بنا اور عدلیہ آزادی تحریک شروع ہوئی ۔ جنرل پرویز مشرف کو فوج کے سربراہ کے عہدے سے نو سال بعد 28 نومبر 2007ء کو سبکدوش ہونا پڑا۔ انہوں نے 29 نومبر 2007ء کو پانچ سال کیلئے نئے دور کے لئے صدر کا حلف اٹھایا لیکن اس عہدے پر زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکے اور 18 اگست 2008ء کو مستعفی ہو کر ملک سے باہر چلے گئے۔