اٹلی کے حکام کی مخالفت کے باوجود مہاجرین سے بھری کشتی کو بچالیا

کیرولاکیخلاف مقدمہ چل رہا ہے ، پندرہ سال قید کی سزا ہوسکتی ہے

 

ربڑ کی خستہ حال کشتی سمندر کی طوفانی لہروں پر ڈگمگارہی تھی۔اس پر جنگ زد لیبیا کے 53 پناہ گزین سوار تھے۔کشتی کی بظاہر کوئی سمت نہ تھی۔لیبیا کا ساحل جہاں سے یہ روانہ ہوئی تھی اب جنوب میں 47میل دور تھا جبکہ قریب ترین یورپی مقام بھی اس سے شمال میں ایک سوچالیس میل کی دوری پرواقع تھا۔

کشتی کو دس سے بارہ بجے کے درمیان ایک فرانسیسی طیارے نے دیکھا ۔رضاکاروں پر مشتمل یہ طیارہ بحیرہ روم میں مصیبت سے گھرے افراد کو تلا ش کرنے میں مصروف تھا۔ چنانچہ اس اس طیارے کے عملے نے ایک دوسری کشتی جس کانام’’ سی واچ ، تھری‘‘ تھااور جو ایک چیریٹی مقاصدکے لیے کام کرنے والی کشتی تھی ،کو اس کے بارے میں آگاہ کردیا۔

سی واچ تھری کے عملے نے فوری طورپر اپنی کشتی کو مصیبت میں مبتلا ڈنگی (ربڑکی کشتی) کی جانب بڑھا نا شروع کیا اوراس میں سوار افراد رکو کامیابی کے ساتھ بچا لیا۔اس مرحلے پر کشتی کا عملہ بچائے جانے والے پناہ گزینوں کو لیبیائی کوسٹ گارڈ کے حوالے کرسکتا تھا لیکن سی واچ تھری کی کپتان جو کہ ایک اکتیس سالہ جرمن خاتون کیرولاریکیٹ تھی ، اس نے ایسا نہ کیا۔

لیبیا کے بارے میں جیسا کہ سب کو علم ہے کہ وہ گذشتہ کئی سالوں کے دوران قانون سے محروم اور افراتفری کا حامل ملک بن چکا ہے جہاں مسلح ملیشیائوں کی عمل داری ہے چنانچہ جرمن چیریٹی سی واچ نے عزم کررکھا تھا کہ وہ پناہ گزینوں کو لیبیائی حکام کے حوالے نہیں کریگی۔چیریٹی نے ایک بیان میں کہا کہ بچائے جانے والے افراد کو جنگ زدہ ملک کے حوالے کرنا جہاں انہیں قید کردیا جائے اور تشدد کیا جائے ، ایک جرم ہے ، جو ہم کبھی بھی سر زد نہیں کرینگے۔

سی واچ کے قریب ترین جو بندرگاہ تھی ، وہ ایک اطالوی جزیرہ لیمپی ڈوسا تھا تاہم اٹلی کی حکومت نے پابندی عائد کررکھی تھی کہ پناہ گزینوں سے بھری کوئی کشتی ان کے جزیرے پر لنگر انداز نہ ہونے پائے۔کیرولا ریکیٹ نے  29جون کو حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے دو ہفتے بین الاقوامی پانیوں میں گذارے کیونکہ کشتی میں موجودپناہ گزینوں کی صحت خراب ہورہی تھی۔

چنانچہ اٹلی ہی آخری آپشن تھا جہاں ان مصیبت زدہ انسانوں کو اتارا جاسکتا تھا۔

کیرولا ریکیٹ اس وقت جس اٹلی کی طرف بڑھ رہی تھی ، یہ وہ اٹلی نہیں تھا جہاں 2015 کے وسط میں مہاجرین کا بحران اپنے عروج پر تھا۔

اس سال یورپ کو بھاگنے والے دس لاکھ سے زائد مہاجرین یا پناہ گزنیوں میں سے ایک لاکھ چون ہزار اٹلی کے حصے میں آئے تھے جس پر اس وقت کے اٹلی کے وزیراعظم میٹیو رینزی نے یورپی یونین کے دیگر ممالک سے مدد کی درخواست کی تھی ۔اب اٹلی کے ساحلوں پر پہنچنے والے پناہ گزنیوں کی تعداد گھٹ کر خاصی کم ہوچکی ہے اوراس سال تک صرف 2800پناہ گزین ہی اٹلی پہنچے ہیںجبکہ اٹلی پر اس وقت دائیں بازوکے مقبول اتحاد کی حکومت ہے جس کی الیکشن میں کامیابی کی ایک جزوی وجہ اس کا مہاجرین مخالف پلیٹ فارم ہے۔

اٹلی کے وزیرداخلہ میٹیو سالوینی جنہیں ان کے حامی ’’دی کیپٹن ‘‘کہتے ہیں ، وہ تواتر کے ساتھ فیس بک پربراہ راست خطاب کرتے ہوئے یورپی یونین پر تنقید کرتے ہیں۔اس سلسلے میں جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل اور فرانس کے وزیراعظم ایمانویل میکغوں ان کا اکثر ہدف ہوتے ہیں۔سالوینی ٹویٹر پر لکھتے ہیں،’’اٹلی نے اب اطاعت میں سر جھکانا چھوڑ دیا ہے۔‘‘ مہاجرین سے بھری کشتیوں کو اٹلی کی بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونے کی اجازت دینے سے روکنے کاحکم دیتے ہوئے انہوں نے لکھا ،’’اس مرتبہ یہاں پر ’’نو ‘‘کہنے والے لوگ موجود ہیں۔‘‘  

اٹلی کی حکومت کا موقف ہے کہ لیبیائی کوسٹ گارڈز کومہاجرین کو واپس لے جانا چاہیے اور یہ کہ ریسکیو کی کشتیاں اور جہاز ایک ایسی ٹیکسی سروس کا کردار ادا کررہی ہیں جو انسانی سمگلر وں کے کام میں مددگار ہیں۔بہت سے اطالوی اس بات سے متفق ہیں۔پیو ریسرچ سنٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق باون فیصد اطالوی عوام سمجھتے ہیں کہ مہاجرین ان کے ملک پر بوجھ ہیں جبکہ گذشتہ چارسال کے دوران ایسے اطالوی عوام کی شرح بھی کم ہوچکی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پناہ گزین ان کے ملک کو مضبوط بناتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں پناہ گزنیوں کا بحران اس قدر شدت اختیار کرچکا ہے کہ انسانی امداد کے لیے کام کرنے والی ایک مشہور شپ ’’ایکواریس‘‘گذشتہ سال سمندر میں پھنسے لوگوں کو بچانے کاکام بند کرچکی ہے ۔ اس پر ایک ایسا موقع آچکا ہے کہ یہ چھ سو پناہ گزینوں کو لے کر سمندر میں بھٹک رہی تھی لیکن کوئی ملک اس جہاز کو اپنی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔یہ جہاز اپنے لائسنس سے دست بردار ہوچکا ہے۔ 

گیارہ جون کو اٹلی کی کابینہ نے ایک ایمرجنسی قانون منظور کیا جس کے تحت قرار دیا گیا کہ اگرکوئی بھی جہاز یا کشتی بغیر اجازت اطالوی پانیوں میں داخل ہوئی تو اسے پچاس ہزار یوروجرمانہ کیاجائے گا۔اس قانون کے اگلے ہی روز کیرولا ریکیٹ کو مصیبت زدہ پناہ گزنیوں کی اس کشتی سے واسطہ پڑاجس میں 53پناہ گزین سوار تھے۔

کشتی کے تیرہ پناہ گزنیوں کو علاج معالجے کے لیے سی واچ تھری پر لایا گیا جہاں وہ دو ہفتوں تک موجودرہے۔تاہم دیگر چالیس پناہ گزین اپنی ڈنگی کشتی پر ہی رہے جہاں شدید گرمی اور لو کی وجہ سے ان کی حالت خراب رہی۔

’’میٹیوسالوینی نے اس وقت آپ کو اپنا دشمن نمبر ایک بنا رکھا ہے ۔آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں؟‘‘یہ سوال کیرولاریکیٹ سے ایک ویڈیوانٹرویو میں پوچھا گیا ۔کیرولا جس نے اپنے بالوں کوافریقی انداز میں بنا رکھا تھا ،کنکھیوں سے سورج کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ،’’ایمانداری کی بات ہے کہ میںنے ابھی ان کے الفاظ نہیں دیکھے۔میرے پاس اس کا وقت ہی نہیں ہے۔میں اس وقت ساٹھ لوگوں کی جان بچانے کی کوشش کررہی ہوں اور مسٹر سالوینی کو نظرثانی کرنا ہوگی ۔‘‘

اس وقت اگر کوئی مسٹر سالوینی کی نا فرمانی کررہا تھا تو وہ کیرولا ریکیٹ ہی تھی۔کیرولاجرمن قصبے پریٹزمیں پیداہوئی جوکہ ڈنمارک کے بارڈر کے ساتھ واقع تھا۔شمالی جرمنی کے قصبے ہیمبرن میں آباد ہونے سے پہلے وہ بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ دنیا گھوم چکی تھی۔ہمبرن میں اس نے پولر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کی جہاں اس نے نیوی گیشن کا فن سیکھا جسے اب وہ بحیرہ روم میں استعمال کررہی تھی۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کیرولا کے ساتھیوں نے اس کے بارے میں کہا کہ وہ ایک سنجیدہ شخصیت ہے جو بین الاقوامی معاشرے میں اپنے کردار کا بھرپور احساس رکھتی ہے ۔گرین پیس آپریشنزکے کمپین ایڈوائزر گرانٹ اوکس نے کہا ،’’عالمی طورپر وہ بہت آگاہی رکھتی ہے اور گلوبل کمیونٹی میں اپنے اصولوں اور اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ بہت مخلص ہے۔وہ بہت منکسر المزاج اور محنتی ہے ۔ ‘‘

وہ بین الاقوامی سمندروں میں بہت سی مہمات میں اپنا کردار ادا کرچکی ہے۔جرمن براڈ کاسٹر ڈوئچے ویلے کے مطابق سی واچ میں اپنے پہلے آپریشن میں اس نے بحیرہ روم میں ڈوبنے والے 45پناہ گزنیوں کی لاشوں کو تلاش کرنے میں مدد دی تھی۔

روم کی لوئیس یونیورسٹی میں قانون اور امیگریشن پالیسیزکے پروفیسر کرسٹوفر ہائن کہتے ہیں،’’ کیرولا ایک علامتی شخصیت بن چکی ہے۔ وہ نوجوان ، بہادر اور ایک جرمن خاتون ہے۔اٹلی میں اب ہر کوئی اس کے بارے میں گفتگو کررہا ہے۔ایک طرف ایک ایسا مرد ہے جو اطالوی پارلیمنٹ کی اکثریت کی نمائندگی کررہا ہے تو دوسری جانب ایک نوجوان خاتون ہے جس نے انسانی فلا ح وبہبود کی سرگرمیوں کا تہیہ کررکھا ہے۔ ‘‘

جو لوگ کیرولا کو جانتے ہیں اور سی واچ میں ہونے والے واقعات سے آگاہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ انہیں کوئی شک نہیں کہ کیرولا جو کچھ کررہی ہے ، وہ اس کا اپنے مقاصد کے ساتھ مخلص ہونے کا ثبوت ہے۔وہ اپنے آدرشوں کے مطابق کام کرے گی۔وہ جو کچھ بھی کررہی ہے ، وہ درست ، قانونی اور شفاف ہے۔

پناہ گزینوں کے حوالے سے دو ہفتوں تک کوئی فیصلہ نہ کیے جانے کے بعد کیرولا کا کہنا تھا کہ کشتی پر صورت حال خراب ہونے لگی ہے اور کچھ پناہ گزنیوں نے خود کو نقصان پہنچانا شروع کردیا ہے۔چنانچہ کیرولا نے کشتی کو بندرگا ہ پر لے جانے کا فیصلہ کیا۔اس کوشش میں کیرولا کی کشتی ایک اطالوی پولیس بوٹ سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔سالوینی نے اس بات کو ’’جنگ ‘‘اور کیرولا کو سمندری قزاق قرار دے دیا۔

سی واچ کی لیمپی ڈوسا آمد کے کچھ دیر بعد پناہ گزینوں کو کشتی سے اتار لیا گیا اور کیرولا کو حراست میں لے لیا گیااورخبردار کیا گیا کہ اسے اس عمل پر دس سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔کیرولا نے معافی مانگی اوراس بات کی تردید کی کہ اس نے پولیس بوٹ کو ٹکرمارنے کی کوشش کی تھی۔اس نے صفائی پیش کی کہ ایسا کشتی کو لنگر انداز کرتے ہوئے غلطی سے ہوا۔تاہم جب اس کے خلاف کیس چلا تو جج نے کیرولاکی حمایت کردی اور قرارد یا کہ انسانوں کی جان بچانا اس کی ڈیوٹی تھی ۔وہ اپنا فرض ادا کررہی تھی ۔جج السانڈراویلا نے قرار دیا کہ اس نے کسی کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالا۔ دوسری جانب پناہ گزنیوں کو اٹلی میں لانے پر کیرولا کو دھمکیاں دی گئیں جس کے بعد اسے محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیاہے۔تازہ ترین صورت حال کے مطابق کیرولا کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے اوراس پر الزام ثابت ہونے کی صورت اسے پندرہ سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔