وہ موبائل فون کے کیمرہ سے بنا ہوا تیس چالیس سیکنڈ کا وڈیو کلپ تھا لیکن یہ چھوٹا ساکلپ ’’پڑوس‘‘ میں پھیلی بے چینی کی بڑی نشانی تھا ،یہ بھارتی پنجاب کا کوئی علاقہ تھا جہاں بڑی بڑی داڑھی مونچھوں اور رنگین پگڑی والے سکھ نوجوان موٹرسائیکلوں پر بیٹھے جلوس کی صورت میں کہیں جارہے تھے مجھے بھلا ان سکھ نوجوانوں کے کہیں آنے جانے سے کیا دلچپسی ہو نی تھی قریب تھا کہ میں اسے بے معنی سمجھ کر دے کر آگے بڑھ جاتاکہ مجھے کلپ میں سامنے سے فوجی ٹرک آتے دکھائی دیئے دو رویہ سڑک پر ایک طرف سے فوجی قافلہ آرہاتھا اور دوسری جانب سے یہ جلوس جا رہا تھا فوجیوں کو آتا دیکھ کر جلو س میں سے کسی نے زوردار نعرہ لگایا’’خالصتان ۔۔۔‘‘ جلوس میں شامل سکھوں نے مل کرزوردار انداز میں جواب دیا ’’زندہ باد ‘‘۔ پھر یہ نعرہ نعروں کے زوردار سلسلے میںتبدیل ہوگیا ،ایک کے بعد ایک سکھ پھیپھڑوں میں ہوا بھر کرخالصتان کی آواز لگاتا اور اسکے پیچھے حرئت پسند متوالے جوش سے بھری آوازوں میں ایک ساتھ جوا ب دیتے زندہ باد ۔۔۔قافلہ قریب آتا گیاا ور نعروں کا شور بلند ہوتا گیا یہاں تک جلوس اور فوجی قافلہ ایک دوسرے کو کراس کرنے لگے اب نعروں کی نوعیت بھی بدل گئی تھی اور جذبہ بھی بڑھ گیا تھا ،اب نعرہ لگانے والا خالصتا ن کے بجائے ہندوستان کا نام لے رہا تھا وہ گلا پھاڑ کر چلایا ہندوستان ۔۔۔اور حریت پسند سکھوں نے بلا تردد پہلے سے زیادہ اونچی آواز میں جواب دیا’’مردہ باد‘‘قافلہ گزرتا رہا اور نعرے لگتے رہے قافلے میںکسی فوجی افسر نے غیرت نہیں کھائی خاموشی سے گزرنے والے فوجی قافلے کی اس خاموشی نے گویا سکھ حریت پسندوں کے سامنے ہاتھ جوڑ لئے تھے اور 1984ء میں آپریشن بلیو اسٹارکی ناکامی کا اعتراف کرلیا تھا۔ اس کلپ نے مجھے دنیا بھر میں سکھوں کے سب سے مقدس ترین مقام ہری مندر صاحب جسے گولڈن ٹیمپل بھی کہا جاتا ہے یاد دلا دیااور جب گولڈن ٹیمپل یاد آیا تو آپریشن بلیو اسٹار کیسے یاد نہ آتا ؟ تین جون 1984ء کواندرا گاندھی کے حکم پر ڈیڑھ لاکھ بھارتی فوج نے لیفٹننٹ جنرل سنگھ دیال کی قیادت میں گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کردی تھی جہاں بھارتی بنئے کے امتیازی سلوک اور چانکیہ کے چیلوں کے مظالم کے خلاف سنت جرنیل سنگھ مزاحمت کی علامت بنابے خوفی کے ساتھ موجود تھا،اس شیر کو گھیر کر مارنے کے لئے تین جرنیلوں کی کمان میں ڈیڑھ لاکھ فوج دی گئی،ان کی مدد کے لئے بھارتی فضائیہ کے گن شپ ہیلی کاپٹر الگ تھے ،اس آپریشن میں کانگریس بھی استعمال ہوئی اور اسے بی جے پی نے حکومت میں نہ ہونے کے باجود استعمال کیا جس کے پیچھے ’’ہندوتوا‘‘ کے اصل کھلاڑی موجود تھے۔ یہ کھلاڑی کسی بھی طرح سنت جرنیل سنگھ کو طاقت ور نہیں دیکھنا چاہتے تھے وہ ان کی آنکھوں میںکانٹے کی طرح کھٹکتاتھا اور کھٹکنا بھی چاہئے تھا وہ اسی کی دہائی میں سکھوں کا مقبول ترین لیڈر بن چکا تھا۔ وہ برابری کی بات کرتا تھا اور سرعام بلاخوف و خطر بھارت پر تنقید کرتا،وہ روزانہ دربار صاحب میں دربار لگاتا جہاں سکھ ہی نہیں ہندو اور مسلمان بھی اپنی اپنی عرضیاں لے کرپہنچتے تھے۔ جرنیل سنگھ ان کی فریاد سنتا اور اپنے ساتھیوں کے ذریعے انکی مدد کرتا جرنیل سنگھ کے پیچھے اسکی سب سے بڑی طاقت سکھ مت تھا وہ سکھوں کے مذہبی تعلیم کے مدرسے دمدمی ٹکسال کا مکھی بھی تھا ،وہ لگی لپٹی بغیر بات کرتا تھا۔اسے سکھوں کے ساتھ دوسرے درجے کا سلوک ناقابل قبول تھا۔وہ اس دوہرے معیار کا شدید مخالف تھا اور یہ مخالفت انہیں حریت کے راستے پر لے آئی۔ ہندوستان پر قابض’’مقتدر براہمن اقلیت ‘‘ نے جرنیل سنگھ کا کانٹا نکالنے کا فیصلہ کیااور پھر آپریشن بلیو اسٹار کے تانے بنے گئے ۔ آپریشن بلیو اسٹار کیا تھا ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کے ساتھ پنجاب بھر میں کرفیو لگا کر گولڈن ٹیمپل کو آزادی کے متوالے سکھوں کے لہو سے دھونے کا پلان تھا۔جرنیل سنگھ سکھوں کے ’’مرکز ‘‘ میں بیٹھے حکومت کے مسے نوچ رہاتھا اس وقت نیوز چینل کی بھرمار تھی نہ سوشل میڈیا نے جنم لیا تھا خبریں یہاں وہاںبجلی کی سی تیز ی سے نہیں پہنچتی تھیں ،بھارتی فوج نے کرفیولگا کر گولڈن ٹیمپل کا محاصرہ کیاا ور چڑھائی کردی ،تین تاریخ کو محاصرہ ہوا مورچے بنائے گئے ہیوی فائر ہوئے لیکن مورچہ بند جرنیل سنگھ قابو نہ آیا ،جھنجھلائی ہوئی بھارتی فوج نے ٹینکوں سے گولے داغنے شروع کر دیئے یہ بھی خیال نہ کیا کہ اندر معصوم سکھ شہری اور خواتین، بچے بھی موجود ہیں۔۔۔اندر موجود لوگوں میں بھارتی فوج کے حملے کی عینی شاہد پریتم کور بھی تھی اس نے جو دیکھا اسے لکھنے کے لئے پتھر کا دل چاہئے ،پریتم کور کی گود میں اٹھارہ دن کا من پریت سنگھ تھا جو ماں کی گود میں ہر خوف سے بے نیاز ہو کر سو رہا تھا ،بھارتی فوج کے حملے کے بعد پریتم کور اپنی اور معصوم بچے کی جان بچانے کے لئے جائے پناہ کی تلاش میں تھی کہ ایک سنسناتی ہوئی گولی اسکی پشت میں گھس گئی اور اسکے سینے سے لگے بیٹے کا سر چیرتی ہوئی نکل گئی دوسری گولی نے اسکے شوہررشپال سنگھ کو گرادیا اور وہ بھی زخمی پریتم کور پر گر کر تڑپ تڑپ کر جان دے گیا،پریتم ان معنوں میں خوش قسمت رہی کہ اسے زخمی حالت میں گرفتار کیاگیا اور علاج معالجہ بھی کروایا گیا۔وہ چار سال تک جیل میں رہی اور جب باہر آئی تو اس کے سر پر آنچل رکھنے والا کوئی ہاتھ نہ تھا اسکے سارے بھائی آپریشن بلیو اسٹار کی نذر ہوچکے تھے ۔ اس آپریشن میں کتنے لوگ مارے گئے ،درست اعداد و شمار کبھی سامنے نہیں آئے البتہ مقتول وزیر اعظم اندرا گاندھی کے مقتول وزیر اعظم بیٹے راجیو گاندھی کے مطابق سات سو افرا د جان سے گئے جبکہ سکھ یہ اعدادو شمار ہزاروں میں بتاتے ہیں ،سکھوں نے گولڈن ٹیمپل پر حملے کا بڑا بھیانک انتقام لیا ۔چار ماہ بعد ہی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی دو سکھ گارڈوںکے ہاتھوں آنجہانی ہوکر ماضی کا قصہ بن گئیں۔ آپریشن بلیو اسٹار بھی ماضی ہو گیا پریتم کور کی آہیں بھی کہیں پیچھے رہ گئیں لیکن جرنیل سنگھ کی فکر کو ماضی نہ جکڑ سکا وہ ماضی بھی تھی حال بھی ہے اور مستقبل بھی ،ایسا نہ ہوتا تو آج میرے سامنے سکھ حریت پسند بھارتی فوج کے سامنے سینہ کھول کر خالصتان کے نعرے لگاتے ؟ صاف بات ہے خالصتان تحریک بھی موجود ہے ، جرنیل سنگھ کی فکر بھی اور اس شیر دل حریت پسند کے سپاہی بھی اور اسکا ثبوت بھی!