وفاقی وزیر شبلی فراز اور فواد چودھری نے پریس کانفرنس کے دوران اپوزیشن کو لانگ مارچ موخر کرکے اصلاحات پر بات چیت کی دعوت دی ہے۔ وفاقی وزراکا کہنا تھا کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کو سیاست کا کوئی تجربہ نہیں‘ اس لیے ان کی جماعتوں کے سینئر اراکین پالیسی سازی کا فریضہ انجام دیں۔ حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے دونوں وزراء نے کہا کہ حکومت بدعنوانی کے سوا ہر معاملے پر اپوزیشن سے بات کرنے کو تیار ہے اور خواہش ہے کہ آئندہ انتخابات شفاف ہوں۔ پاکستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ یہ بحران آج یا موجودہ حکومت کے وقت سے نہیں‘ جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پیداواری وسائل ہڑپ کرنا شروع کئے معیشت کا ہر شعبہ متاثر ہوتا چلا گیا۔ ملک میں تعلیمی سہولیات کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے‘ آبادی کا بڑا حصہ علاج کی سہولت دستیاب نہ ہونے پر بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑتے مر جاتا ہے۔ سندھ‘ بلوچستان اور پنجاب کے دور دراز علاقوں میں خورا ک کی کمی سے سالانہ ہزاروں بچے مر جاتے ہیں۔ حکومتیں بے بسی سے ان معصوموں کو مرتا دیکھتی رہتی ہیں۔ خطے میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے پاکستانی شہری سب سے کم کما رہے ہیں‘ اسی طرح آبادی میں اضافے کی رفتار خطے میں سب سے زیادہ پاکستان میں ہے۔ مطلب یہ کہ سب سے کم وسائل والا ملک ہوتے ہوئے پاکستان آبادی کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے۔ نوجوان بیروزگار ہیں‘ کھیلوں کے لیے میدان نہیں۔ تفریح کی معیاری سہولیات نہیں‘ ٹرانسپورٹ سہولیات کی شدید کمی ہے۔ مسائل کا ایک انبار ہے جو حکومت‘ افسر شاہی اور عوامی نمائندوں سے توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔ ملک کو چلانے کے لیے نظام کا شفاف‘ ہموار اور مسلسل فعال رہنا از حد ضروری ہوتا ہے۔ آئین پاکستان نے مقننہ‘ انتظامیہ اور عدلیہ کے لیے دائرہ کار متعین کر رکھے ہیں۔ جہاں ایک ادارے کا دوسرے سے معاملہ ہوتا ہے اس سلسلے میں بھی تشریحات موجود ہیں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی ادارہ اور شخصیت آئینی طریقہ کار کو پامال کر کے مخصوص مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کئی بار آئین میں جان بوجھ کر ایسے نقائص برقرار رکھے جاتے ہیں جن سے نت نئے بحران جنم لیں۔ سیاسی یا انتظامی حلقے جب اس بحرانی صورت حال میں مکالمہ سے انکار کرتے ہیں تو بحران سنگین ہو جاتا ہے۔ حالیہ دنوں اس صورت کا سامنا سینٹ الیکشن میں کرنا پڑا۔ آئین میں تحریر ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سینٹ کے لیے ممبران کا انتخاب بطور الیکٹورل کالج کریں گے۔ یہ انتخاب بالواسطہ ہے اور کسی سیاسی جماعت کو اسمبلی میں جس قدر نشستیں حاصل ہیں اس کے تناسب سے سینٹ میں اس کے اراکین منتخب ہوں گے۔ اس عمل کے لیے ضابطہ مقرر کیا گیا کہ رائے دہی کا عمل خفیہ ہوگا۔ عملی صورت حال یہ ہے کہ ہر بار سینٹ کے امیدوار اراکین اسمبلی سے ووٹ خریدتے ہیں۔ ووٹوں کی خریدوفروخت کا عمل راز نہیں رہا۔ انٹیلی جنس اداروں‘ حکومت اور عوام تک اس خرابی سے آگاہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص ووٹ فروخت کرے گا وہ عوامی نمائندگی کا حق ادا کرنے کے قابل نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح جو امیدوار ووٹ خریدتا ہے وہ گویا سرمایہ کاری کرتا ہے ۔ایسا شخص سینٹ کا رکن بن کر اس رواج کا محافظ بنتا ہے۔ یوں ووٹوں کی خریدوفروخت سے ایک مصنوعی جمہوری نظام پروان چڑھتا ہے۔ یہ نظام کہنے کو جمہوری ہوتا ہے لیکن اس میں عوام کے مفاد میں کوئی قانون سازی ہوتی ہے نہ پالیسی بنائی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس قباحت کا ادراک کرتے ہوئے اپوزیشن کو آئینی ترمیم کی دعوت دی جسے مسترد کر دیا گیا کیونکہ اپوزیشن کا ایک حصہ سمجھ رہا تھا کہ ترغیب اور دبائو کے کچھ حربے آزما کر اپوزیشن اپنے تناسب سے زیادہ نشستیں حاصل کرسکتی ہے۔ سینٹ انتخابات کے دوران حکومت نے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے اس بابت رجوع کیا۔ صدارتی آرڈینس جاری کیا گیا لیکن اپوزیشن کے عدم تعاون کی وجہ سے اسے آخر کار نقائص سے بھرپور مروجہ طریقہ کار پر اکتفا کرنا پڑا۔ اسلام آباد سے یوسف رضا گیلانی کی جیت صرف ایک نشست کا معاملہ نہیں ہے اس جیت نے اپوزیشن کا حوصلہ بڑھایا کہ وہ حکومت پر دبائو بڑھا سکے۔ چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے دوران اپوزیشن ویسے ہی تحفظات کا اظہار کر رہی تھی جو قبل ازیں حکومت کی طرف سے پیش کئے جا رہے تھے۔ دونوں بار فریقین کو انتخابی عمل‘ طریقہ کار اور قواعد پر اعتراض تھا۔ جب یہ معلوم ہو گیا کہ خرابی کو روکنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے تو تمام جماعتوں کا اولین فرض اس خرابی کو دور کرنا ہے۔ سیاسی جماعتیں خصوصاً اپوزیشن کا رویہ ملکی معیشت کی بحالی‘ انتخابی اصلاحات‘ عوامی بہبود اور حقیقی جمہوری اقدار کی پرورش کی بجائے تصادم کوفروغ دینا دکھائی دیتا ہے۔ لانگ مارچ‘ عدم اعتماد کی تحریک‘ ووٹنگ کے دوران گڑ بڑ‘ جلسوں کا انعقاد اور اب پھر لانگ مارچ کی باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ عوام کی زندگی آسان بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں اور ان کے قائدین کے پاس فرصت نہیں۔ یہ درست ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت نے بروقت سیاسی جماعتوں سے رابطے بحال کرنے میں سستی دکھائی لیکن اب ان کی سوچ میں تبدیلی کا اشارہ مل رہا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کو باہمی تصادم اور کشمکش کو بڑھانے کی بجائے مل کر ملک میں استحکام لانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ سیاست جمہوری انداز میں بھلی لگتی ہے۔ یہ برداشت اور مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ حکومت اگر قومی مسائل پر اپوزیشن سے بات کرنے پر آمادہ ہے تو اس سلسلے میں اپوزیشن کو وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔