اسلام آباد ( خبر نگار خصوصی)صدارتی ریفرنس کے خلاف کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل کا کہنا ہے کہ بہتر تھا کہ معلومات پر جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو شوکاز جاری کر کے جواب طلب کیا جاتا ممکن ہے جسٹس فائز عیسی ٰکی اہلیہ کے جواب سے ٹیکس اتھارٹیز مطمئن ہو جاتیں اگر اتھارٹیز مطمئن نہ بھی ہوتی تو بھی دوبارہ جائزہ کا حکم دیا جا سکتا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے دوران سماعت سوال اٹھایا کہ کیا جج کیخلاف پرائیویٹ شکایت پر پوری مشینری کو کھوج لگانے پر لگایا جاسکتا ہے ،؟۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کی سماعت کے دوران وکیل بابر ستار نے دلائل میں موقف اپنایاٹیکس قانون میں وضاحت طلب کرنے کا طریقہ کار موجود ہے ، صدر کے پاس جانے سے پہلے سٹیٹ بنک سے رپورٹ طلب کی جانی چاہیے تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کن قوانین کی خلاف ورزیاں ہوئیں ریفرنس میں اس کا نہیں بتایا گیا، کوڈ آف کنڈکٹ صرف ججز کے تحفظ کیلئے نہیں اوروں کیلئے بھی ہے ، الزام ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آمدن کے ذرائع نہیں بتائے ،کل آپ نے شہری حقوق پر بات کرتے ہوئے منیر اے ملک کے دلائل کی مکمل نفی کی۔ بابر ستار نے کہا ممکن ہے ناتجربہ کاری کے باعث اپنی بات کی وضاحت نہ کر سکا،آرٹیکل 10 کے تحت کونسل شہری حقوق پر بات نہیں کر سکتی۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہا شاید تکنیکی بنیادوں پر آپ درست کہہ رہے ہوں لیکن یہ نقاط بہت چھوٹے ہیں ،کیس کے میرٹ پر اپنے دلائل دیں ۔ سماعت کے آخر میں جسٹس عمر عطا بندیال کا ایڈووکیٹ بابر ستار سے مکالمہ میں کہنا تھا کہ بابر ستار صاحب کمرہ عدالت میں لگی گھڑی بھی کچھ کہہ رہی ہے ،آپ کے دلائل غور طلب ہیں،آ پ ٹیکس قوانین سے متعلق اپنے دلائل مکمل کریں۔ بابر ستار نے کہا اگر مجھ سے سوالات نہ کیے گئے تو آج دلائل مکمل کر لوں گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آج مقدمے کی سماعت بیس اوور والے میچ کی طرح کریں گے ۔ سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔