ماڈل ٹائون موڑ کی طرف سے داخل ہوں تو بائیں ہاتھ آموں کے قدیم درخت ہیں۔ کسی زمانے میں شروع والے حصے میں نرسری تھی۔ نرسری کے آگے فیروزپور روڈ کے ساتھ ساتھ آموں کا باغ آتا۔ باغ سے ایچ بلاک تک کھیت ہم نے اپنے بچپن میں دیکھے۔ یہ کھیت نواز شریف کے گھر کے سامنے واقع کچی بستی کی دیوار کو چھو کر ختم ہو جاتے۔ اسی ایچ بلاک کی کہانی لکھتے ہوئے مظفر بخاری صاحب نے ایک ایسا انکشاف کر دیا کہ بھٹو کے حامی اور مخالف سوشل میڈیا پر پھر آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ بس کسی کو معاملے سے دلچسپی دکھائی نہیں دی تو وہ بھٹو صاحب کی جماعت پیپلز پارٹی اور ان کا نواسہ بلاول۔ ماڈل ٹائون بی بلاک سے ایک چھوٹی سڑک اس آموں والے باغ کے سامنے جا نکلتی ہے۔ جیسے ہی باہر آئیں دائیں ہاتھ نامور ڈرامہ نگار اور ادیب امتیاز علی تاج کا مکان ہے۔ بھٹو صاحب کو سزائے موت دینے والے جسٹس مولوی محمد مشتاق کا گھر اس چھوٹی سڑک پر اب بھی برے حال میں ہے۔ مولوی مشتاق جب فوت ہوئے تو ان کی میت نماز جنازہ کے لیے ان ہی آموں کے قریب رکھی گئی۔ یہاں سنبل کے کچھ پیڑ ہیں۔ شہد کی مکھیوں نے وہاں سات آٹھ فٹ کے کئی چھتے بنا رکھے تھے۔ کئی دن سے ادھر جا نہیں سکا، شاید اب بھی ہوں۔کہتے ہیں پیپلزپارٹی کے کسی جیالے نے ان چھتوں پر پتھر پھینک دیئے۔ مکھیاں آناً فاناً جنازے کے لیے جمع لوگوں پر حملہ آور ہو گئیں۔ بہت سے لوگ بری طرح کاٹے جانے سے ہسپتال پہنچے۔ بھٹو صاحب کے جیالے کہتے ہیں کہ مکھیاں خدا کی طرف سے سزا دینے کو بھیجی گئیں۔ کئی سال پہلے کسی ڈائجسٹ کا ایک پرانا شمارہ دیکھا۔ اس میں مولوی مشتاق کی میت چارپائی پر اکیلی پڑی تھی اور لوگ دور بھاگ چکے تھے، یہ تصویر ریکارڈ کا حصہ ہے۔ مظفر بخاری صاحب لگ بھگ پینتالیس سال سے مختلف اخبارات کے لیے لکھ رہے ہیں۔ روزنامہ دن میں ان سے تعارف ہوا۔ شفقت کرتے ہیں۔ ان دنوں ہمارے اخبار میں لکھ رہے ہیں۔ نواز شریف کے ماڈل ٹائون والے گھر کے تقریباً سامنے ان کی رہائش ہے۔ ماڈل ٹائون میں ہمارا سکول تھا۔ پہلے رہائش بھی ساتھ والے گارڈن ٹائون میں رہی۔ بخاری صاحب کو فون کر کے پوچھا کہ مولوی مشتاق نے آپ سے ہی کیوں کہا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی غلط دی گئی۔ بخاری صاحب نے بتایا کہ ان کے ایک عزیز صادق علی شاہ تھے۔ شاہ صاحب اور مولوی مشتاق اوائل جوانی سے دوست تھے۔ یہی وجہ تھی کہ صادق شاہ لاہور ہائیکورٹ کے بیلف ہونے کے باوجود جج بننے والے مولوی مشتاق سے بے تکلف تھے۔ مولوی مشتاق بھی ان سے بے تکلفی سے معاملات کرتے۔ صادق علی شاہ کے فرزند جاوید نے بی اے کے بعد ایل ایل بی کیا۔ مولوی مشتاق نے جاوید کو بھی بیلف بھرتی کرا دیا بلکہ اس کے لیے سرکاری رہائش کا انتظام بھی کرا دیا۔ بخاری صاحب کے بقول انہوں نے مولوی مشتاق کے گھر گارڈ کے فرائض انجام دینے والے صاحب سے کہا کہ وہ جج صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔ اپنے تعارف میں انہوں نے بتایا کہ وہ صادق علی شاہ کے کزن ہیں۔ مولوی مشتاق ان دنوں لاغر ہو چکے تھے۔ بہت کم لوگ ان سے ملنے آیا کرتے۔ ماڈل ٹائون کے ہر بلاک کے درمیان میں دائرے کی شکل میں کمرشل ایریا ہے۔ بی بلاک کی مارکیٹ ان سے دس بارہ گھر کے فاصلے پر تھی۔ جو لوگ ماڈل ٹائون کے مزاج کو جانتے ہیں انہیں علم ہے کہ دکاندار ہر گھر کے افراد سے واقف ہوتے ہیں۔ ڈیفنس کے اجنبی ماحول میں اسی لیے ماڈل ٹائون والے ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے۔ بہر حال پہلی ملاقات کے بعد مظفر بخاری صاحب مولوی مشتاق سے ملتے رہے۔ ایسی ہی ایک ملاقات کے دوران مولوی مشتاق نے انکشاف کیا کہ ان پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوارالحق کا سخت دبائو تھا اور وہ خود بھی بھٹو صاحب سے کسی وجہ سے خفا تھے۔ اس لیے انہوں نے ان کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے نا انصافی کی۔ بخاری صاحب کا کہنا ہے کہ مولوی مشتاق اس بات پر بہت پشیمان اور افسردہ رہتے۔ انہوں نے کئی دکانداروں اور ہمسایوں کے ساتھ بھی اسی طرح کی گفتگو کی۔ بھٹو صاحب کی ایک کتاب ہے ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘۔ بھٹو صاحب کے دوست، بے نظیر بھٹو کے فارن سپوکس پرسن اور بلاول بھٹو کے سینئر ایڈوائزر جناب بشیر ریاض نے یہ کتاب چند برس قبل تحفہ کی تھی۔ اس میں ایک باب قصوری قتل کیس سے متعلق ہے۔ اس مقدمے پر بھٹو صاحب نے خود وضاحت کی ہے۔ اب تک ہزاروں مضامین اخبارات اور جرائد میں اس حوالے سے شائع ہو چکے ہیں۔ میری جسٹس ایس کے صمدانی مرحوم سے بھی ملاقاتیں رہیں جنہوں نے بھٹو صاحب کی ضمانت لینے کے بعد ضیاء الحق کو بھگتا۔ جسٹس صمدانی کس پائے کی شخصت تھے اس پر بات کرنے والے سینکڑوں لوگ ابھی حیات ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی سوانح ’’دختر مشرق‘‘ کے صفحہ186پر ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’مارچ 1979ء کے پہلے ہفتوں میں بھٹو صاحب کے وکلاء نے عدالت میں نظرثانی کی اپیل پر دلائل کے انبار لگا دیئے لیکن ایک دن میں اور میری والدہ نے بی بی سی شام کی سروس سننا چاہی تو ہمیں پتہ چلا کہ میرے والد کے وکلائے صفائی میں سے مسٹر غلام علی میمن فلیش مین ہوٹل میں اپنی ڈیسک پر کام کرتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔ وہ آخری عدالتی جرح میں دلائل لکھوا رہے تھے اور آخر وقت زبان سے ’’اللہ، اللہ‘‘ کے الفاظ ادا ہوئے۔ مارشل لاء کا ایک اور شکار پار ہو گیا۔ ہم نے ریڈیو بند کر دیا، ہم کچھ کہنے میں بے بس تھیں۔‘‘ بھٹو صاحب کو موت کی سزا دینے والوں میں سے ایک جسٹس نسیم حسن شاہ پہلے ہی اپنے فیصلے پر شرمندگی کا اظہار کر کے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ جسٹس مولوی مشتاق کے حوالے سے گواہیاں موجود ہیں۔ بس ریکارڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ معلوم نہیں بلاول بھٹو نے صرف سیاست سیکھی ہے یا وراثت میں بھٹو صاحب کے دفاع کی جائیداد بھی ان کے پاس ہے۔ انہیں سیاست کرتے ہوئے چار پانچ سال ہو چکے ہیں ۔ کچھ برس ہوئے بھٹو کیس دوبارہ کھولنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ معلوم نہیں بھٹو کا دفاع کرنے والا کوئی بھٹو بچا ہے یا نہیں؟