سعدی نے درست ہی کہا تھا کہ ہنسنے کھیلنے کی باتیں دوستوں کے لئے چھوڑ دو۔اس میں کیا شک ہے فکر سنجیدگی اور تفکر کی اپنی شان ہے۔ ادب میں جو مقام ٹریجڈی یعنی المیہ کو حاصل ہے وہ کامیڈی یعنی طربیہ کو حاصل نہیں۔ میں اس پر لیکچر نہیں دے رہا بلکہ یونہی بات آگے چلانے کا قصد کیا ہے کہ کبھی کبھی ہنسنے کھیلنے کو دل تو چاہتاہے‘ خاص طور پر جہاں صرف یہی کچھ ہو رہا ہو‘ یعنی زمانے کا چلن ہی بن جائے کہ ہر سکرین پر طنزو مزاح سے بات آگے نکل چکی ہو اور کہیں بھی کوئی ایسا تعمیری پروگرام نظر نہ آئے بلکہ ہر طرف جگت بازی‘ نقلیں ہوتی دکھائی دیں اشرف قدسی کا شعر یاد آتا ہے: اعلان جہل کر تجھے آسودگی ملے دانشوری تو خیر سے ہر گھر میں آ گئی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسا دور آ گیا ہے کہ جہل فخر کا باعث ہے۔ بات اصل میں مجھے کرنا تھی۔ ریڈیو اور ٹی وی پر زبان و محاورہ کا خیال تو ایک طرف تلفظ اور ادائیگی کو بھی پرکاہ جتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ میں فواد چودھری کی باتیں سن رہا تھا کہ اس نے کھرا سچ کے مبشر لقمان کو کیونکر تھپڑ رسید کیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مبشر بے سروپا باتیں کرتا ہے کم از کم قارئین کو یہ تو ہم بتا دیں کہ سر اور پا الگ ایک لفظ ہیں’’و‘‘ کے ساتھ ان کو ملائیں تو بے سروپا بنتا ہے جس کا مطلب ہے وہ بات جس کا نہ سر ہو اور نہ پیر۔ یہ ’’سروپا‘‘ کوئی چیز نہیں۔ ابھی میں سروپا سے نہیں نکلا تھا کہ اینکر نے کہا وزرائوں تو میں یک دم چونکا کہ یہ جمع دو جمع کیا ہے وزرا تو پہلے ہی وزیر کی جمع ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ بعض لوگ بکس کو بکسز بول دیتے ہیں۔ آپ کہتے ہوں گے کہ میں کیا زبان کی صحت کو لے کے بیٹھ گیا ہوں۔ ایسے ہی جیسے کسی استاد نے لڑکے کا محبت نامہ پکڑ لیا اور شاگرد کی جان نکلی جا رہی تھی کہ اس جرم پر پھینٹی لگے گی۔ وہ استاد سے معافیاں مانگنے لگا کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں ہو گی۔ استاد کڑک کر بولا’’اوئے تم نے تو میری ناک کٹوا دی ہے کہ تم ہو میرے شاگرد اور محبت نامے میں گرامر کی اتنی زیادہ غلطیاں‘‘ میں جانتا ہوں کہ آپ کی دلچسپی فواد چودھری کی زبان سے زیادہ اس کے تھپڑ میں ہے جو اس نے مبشر لقمان کو ایک محفل میں جڑ دیا اور اس سے پہلے ایک اور جگہ ایک اور اینکر سمیع ابراہیم کو رسید کیا تھا یقینا یہ کوئی اچھا عمل نہیں ہے کہ ہاتھ وہاں اٹھتا ہے جہاں دلیل ختم ہو جائے۔ دلیل کے بغیر تو بندہ ذلیل ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی درست کہ مبشر لقمان کی شہرت کوئی زیادہ اچھی نہیں۔ وہ اور مہر بخاری‘ ملک ریاض کا انٹرویو کرتے ہوئے بری طرح ایکس پوز کر دیے گئے تھے۔ لیکن فواد چودھری کے عمل کو سراہا نہیں جا سکتا۔ ویسے دیکھا جائے تو اپنے اپنے شعبے میں کامیاب ٹھہرے کہ ایک اچھا صحافی اور اینکر اپنا کمال یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے شکار کو زچ کر دے۔سوال کم کرے اور ذلیل زیادہ کرے۔ اس کے ناک میںایسا دم کرے کہ وہ اپنے آپے میں نہ رہے بلکہ لبادے ہی میں نہ رہے۔ مبشر لقمان نے یہ کام کر دکھایا۔ دوسری طرف ایک کامیاب وکیل وہ ہوتا ہے جو جیسے تیسے اپنی ورتھ بتا دے آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ وکیل کے پاس سارے آپشن ختم ہو گئے تھے تو اس نے انصاف اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ فواد چودھری کے بقول اس نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ بس یونہی ہاتھا پائی میں ایک آدھ لگ ہی جاتی ہے۔ دوسری طرف مبشر لقمان کا فواد پر احسان یہ ہے کہ اس کی بلٹ پروف گاڑی بھی الیکشن میں فواد کے پاس رہی بلکہ وہ اس مقام پر اس کی مدد سے پہنچا۔ دیکھا جائے تو یہ پی ٹی آئی کا گھریلو معاملہ ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ میں بات یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اینکرز کو ذرا سی احتیاط برتنی چاہیے کہ نمبر گیم میں زیادہ آگے جانے کی کوشش نہ ہی کیا کریں۔ قندیل بلوچ کا معاملہ کوئی بہت پرانا نہیں ہوا کہ اسے بھی یہ لوگ اپنے پروگرام میں بلا کر چسکے لیتے رہے اور پھر اس بے چاری کو اس کے انجام تک پہنچا دیا۔ کسی کو کچھ فرق نہیں پڑا مولانا عبدالقوی کچھ اور قوی ہو گئے اور اینکرز کا دھندا بھی اسی طرح چلتا رہا۔ اب ان کے ہاتھ حریم شاہ اور صندل خٹک آ گئی ہیں۔ یہ شہرت کا بھوت بہت ہی تو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اب پورے پورے پروگرام انہی کرداروں پر چل رہے ہیں جن میں ویڈیوز بھی دکھائی جا رہی ہیں۔ لگتا ہے سب کو کوئی عارضہ ہو گیا ہے۔ شیخ رشید ‘ فیاض الحسن چوہان اور فواد چودھری مرکزی کردار ہیں۔ ایک فقرہ حریم شاہ نے کہا تھا کہ عمران خاں کے علاوہ سارے وزیر ہی ایسے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ انداز عمران خان کو متاثر کرنے والا ہے مگر: چھوڑا نہ تونے میر کسی کو زمانے میں تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ پاکستان کی کابینہ ہی خریدی جا سکتی ہے۔ اب پتہ چلا کہ اس کو بھٹکایا بھی جا سکتا ہے۔ اخلاقی گراوٹ کس سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ایک خاتون نے اس کے طائفے میں پہنچ کر ایسی ہلچل مچائی کہ من و تو کا فرق ہی ختم ہو گیا۔ دور دور تک سنجیدگی نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔ کیا تماشہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ایک گروپ نے دوسرے گروپ کو بدنام کرنے کے لئے گھٹیا انداز اختیار کیا اور پھر نہلے پر دہلہ یہ کہ وہ عورتیں ان سے زیادہ چالات نکلیں یا پھر قدرت کو ہی ایسے منظور تھا کہ کنواں کھودنے والے بھی اسی میں آن گرے۔شرم کی بات تو یہ ہے کہ اس میں ایک آدھ سیاستدان خاتون بھی شامل ہے۔بڑے جو کہہ گئے ہیں غلط نہیں ہے کہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا۔ یا پھر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں’’سب اپنی اپنی جگہ وضاحتیں کر رہے ہیں: بات اپنی وضاحتوں سے بڑھی ہم نے سوچا تھا بات ٹل جائے ہائے ہائے یہ لوگ کن چکروںمیں پڑ گئے ان سے تو غالب بہتر تھا جس نے کہہ دیا کہ: تو اور آرائش خم و کاکل میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز ان وزیروں مشیروں کو تو لگتا ہے کوئی اور کام ہی نہیں۔ فواد چودھری کو جو بھی محکمہ دیا جاتا ہے وہاں ایک مذاق سا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی باتوں میں مغز نہیں ہوتا۔ کبھی وہ چاند کیلنڈر بنانے بیٹھ جاتے ہیں کبھی وہ سائنسی ایجادات شروع کر دیتے ہیں۔ باقی لوگ بھی کچھ نارمل نہیں لگتے۔ آفریدی کی اللہ کو حاضر ناظر جان کر کھائی ہوئی قسمیں مراد کی بے سروپا باتیں اور واوڈا کا انداز۔ کوئی ایک شخص تو ہو جس کو بندا مثال بنا کر بات کر سکے۔ میٹرک پاس وزیر کی بات میں نے کل کالم میں کی تھی۔ لوگ پوسٹیں لگا رہے ہیں کہ ایک ڈرامے میں ایک کردار کہتا ہے کہ ’’ووٹ کا وائو‘‘ زیر تعلیم کے ساتھ لگائیں تو وزیر تعلیم بن جاتا ہے۔ ایک وزیر چھٹیاں بڑھا رہا ہے آئندہ نسل تیار ہو کر اسی وزیر کو ووٹ دے گی اور وہ وزیر اعظم بن جائے گا۔ کبھی ہم ایک سبق ’’میڈٹی پارٹی‘‘ پڑھاتے تھے جس میں سارے کردار ہی ایسے تھے ان کی گھڑی پر ناشتے کا وقت ہی آتاتھا کہ گھڑی خراب ہو کر بند ہو گئی تھی۔ دوسرے کردار نے گھڑی ٹھیک کرنے کے لئے اسے چائے میں ڈبو دیا۔ چلیے چھوڑیے ایک شعر کے ساتھ اجازت: کتنا نازک ہے وہ پری پیکر جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے