مگر اللہ کا فرمان تو یہ ہے: انسانوں کے لیے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں، جس کی انہوں نے جستجو کی۔ اب جو امام یاد آئے تو یاد آتے چلے گئے، امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ۔ آپ کا ایک قول یاد آیا اور جی میں ٹھہر گیا۔فرمایا: قرآن کریم کی یہ آیت ظالموں کے لیے ایک تیر اور مظلوموں کے لیے سائبان ہے۔ ’’تیرا رب بھولنے والا نہیں‘‘ پھر ان کا ایک واقعہ برادرم محمد الغزالی نے سنایا: کمسن صاحبزادی سے ان کے بہت ہی محترم شاگرد اپنے گرامی قدر استاد کا ذکر کیا کرتے۔ الفت، انس اور احسان مندی کے ساتھ۔ جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے، بیٹی کے لیے اس کا باپ ایک مثالی کردار تھا،زاہدِ شب زندہ دار۔ اپنے چھوٹے سے ذہن میں امام کا ایک ہیولا اس نے تراش لیا۔ یہ کہ وہ ان کے والد سے بھی زیادہ عبادت گزار ہوں گے۔ تمام رات نوافل میں،ذکر و فکر میں بیت جاتی ہو گی۔ ایک دن اپنے پیارے شاگرد کے ہاں امام تشریف لے آئے۔ صاحبزادی شاد ہوئی کہ ایک بطل جلیل کے معمولات کا مشاہدہ کرے ۔ عشاء کی نماز آپ نے پڑھی اور کمرے میں تشریف لے گئے۔ لیٹ گئے اور استراحت فرماتے رہے۔ بار بار بچی نے جھانک کر دیکھا۔ بستر سے الگ ہی نہ ہوئے۔ آخر کار وہ سو رہی۔ فجر کی اذان ہوئی تو والد گرامی کے ساتھ بیدار ہوئی۔ انہوں نے کہا:محترم مہمان کو اطلاع دو کہ سحر کی نماز کا وقت ہو چکا۔ دستک دی تو عالی جناب نے اوڑھی ہوئی چادر اتار پھینکی۔ چلے آئے، اللہ کی بارگاہ میں سربسجود ہونے چلے آئے۔ بچی حیران کہ ماجرا کیا ہے۔ وضو تک بھی شاید کیا نہیں۔ نماز پڑھی جا چکی تو ہمیشہ کی دھیمی آواز میں ارشاد کیا:عشاء کے بعد سورہ بقرہ کی آخری آیات نے قلب میں پڑائو کیا۔ سوچنا شروع کیا تو نیند اڑ گئی۔ کمال یکسوئی اور وضاحت کے ساتھ پھر چار نکات بیان کیے۔ صاحبزادی پہ اب کھلا کہ اہل مرتبہ ہوتے کیا ہیں۔ غور و فکر اور ہمہ وقت غور و فکر۔ جہاں تک ممکن ہو، بہترین موضوعات پر، اللہ کی کتاب پر، رحمتہ اللعالمینؐ کے فرامین پر۔یوں تو آخری تجزیے میں پوری کی پوری زندگی اکائی ہے۔ کسی بھی چیز کے باطن میں اترا جائے، آخر کار وہ صداقت اولیٰ تک لے جائے گی۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات یہ ہیں ’’اللہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس قدر، جس کی اس میں طاقت ہو، اچھے کام جس نے کیے تو اسی کے لیے اور جس نے برے کام کیے، وہ اسی پر۔ اے ہمارے رب اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو ہماری گرفت نہ کیجیئو۔ اور اے ہمارے رب، ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈال، جیسا تو نے ان لوگوں پر ڈالا جو ہم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ اور اے ہمارے رب، ایسا بوجھ ہم سے نہ اٹھوا، جس کے اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں۔ اور ہمارے قصوروں سے درگزر فرما اور ہم کو بخش دے۔ اور ہم پہ رحم فرما، تو ہی تو ہمارا کار ساز ہے۔ پس کافروں کے مقابلے میں، ہماری مدد فرما‘‘۔ جناب محمد الغزالی سے پوچھنا چاہیے تھا کہ امام کے اخذ کردہ نکات کیا ہیں۔ مگر کاہلی!سامنے کی بات یہ ہے کہ خالق کی، اس رئوف الرحیم کی رحمت بے کراں ہے۔ اس کی آرزو کرنی چاہیے اور کرتے ہی رہنا چاہیے۔ التجا قبول کی جاتی ہے، یہ قرآن کریم میں لکھا ہے۔ زندگی گراں بار ہے۔ ناہموار پانیوں میں سفینہ اس کے کرم ہی سے آسودہ ہو سکتا ہے۔ سیرت، احادیث اور اسلام کی علمی روایت کا ادراک رکھنے والے عارف یہ کہتے ہیں کہ سرکارؐ کی اُمت پر دوسروں سے کم بوجھ ڈالا گیا۔ مثلاً ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ ایک جلیل القدر پیغمبر، غالباً حضرت دائودؑ کو خاص طور پر عطا کی گئی،ہر ایک امتی کو مگر عمومی طور پر۔ اس کے باوجود ہم ناشکر گزار ہیں۔ اس کے باوجود غور و فکر سے تہی۔ اہل دانش عام ہیں کم یاب ہیں اہل نظر کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ مغرب نے فقط اپنے تاریخی تجربات سے سیکھ لیا۔وہی تاریخ ہمارے سامنے کھلی پڑی ہے۔ تمام تر دانائی کا سرچشمہ قرآن کریم بھی۔اللہ کے آخری رسولؐ کی سیرت اور اقوال بھی۔ اس کے سوا سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے لے کر جناب عمر بن عبدالعزیزؒ تک۔ عمر بن عبدالعزیزؒ سے صلاح الدین ایوبی تک۔ صلاح الدین ایوبی سے، برصغیر میں پہلی بار اور برطانیہ سے ڈیڑھ صدی پہلے، سوشل سکیورٹی سسٹم نافذ کرنے والے ٹیپو سلطان تک۔ وہ آدمی، جس نے پہلا راکٹ بنایا۔ اس راکٹ کی تصویر ناسا کے صدر دفتر میں آویزاں ہے۔ وہ آدمی، جس نے برصغیر میں پہلی بار ایک بڑا بحری بیڑہ بنانے کا خواب دیکھا۔ مسلم برصغیر ڈھے چکا تھا، ذہنی اور فکری طور پر پامال تھا، اس جوہڑ میں ٹیپو کیسے زندہ رہتا۔ وہ عجیب آدمی، جس کے نظام انصاف پہ دائم رشک کیا جاتا رہے گا۔ جس کے مزار پر چراغ کبھی نہیں بجھتے اور سکوت کا لمحہ کم آتا ہے۔ 19مقامی زبانوں میں لکھے گئے گیت ہمہ وقت گائے جاتے ہیں۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کی وفات پر روم کے قیصر نے یہ کہا تھا۔ بادشاہ نہیں، وہ ایک راہب تھا۔ دنیا، اس کے قدموں میں ڈھیر کر دی گئی لیکن نظر اٹھا کر بھی اس نے دیکھا نہیں۔ صلاح الدین کے بارے میں یہی بات مورخ ہیرالڈلیم نے لکھی ہے: بادشاہ نہیں، وہ ایک ولی تھا، مسلمان تو مسلمان ٹیپو کی غیر مسلم رعایا بھی حکمران کی بجائے اسے ایک روحانی شخصیت سمجھتی ہے۔ دوسرا اتنا ہی قابل غور پہلو یہ ہے کہ تاریخ کے دوام میں زندہ رہنے والے یہ تمام اہل عظمت علم کے شیدا تھے۔ سوچ بچار کرنے، نئے خیالات کو قبول کرنے اور اہل دانش سے، ماہرین سے مسلسل مشاورت کرنے والے۔ان اہل دانش سے،جن کا ذکر اقبالؔ نے کیا ہے ۔ حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا ہم نے غور کیا ہوتا، قائد اعظم اور مجدد اقبالؔ پرہی غور کیا ہوتا تو جان لیتے کہ دانا فقط وہ نہیں جس نے اپنے نفس کو سدھا لیا ہو، پاکیزگی کو چن لیا ہو بلکہ وہ کہ روحِ عصر سے آشنا ہو،صاحب ادراک! اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے: درجات علم کے ساتھ ہیں اور یہ بھی کہ ہر جاننے والے کے اوپر ایک اور جاننے والا ہے‘‘ جہلا کا ہم انتخاب کر رہے ہیں۔ مسند اقتدار پر بٹھاتے ہیں۔ آدمی کی بجائے انہیں دیوتا مان لیتے ہیں۔ خود تدبر سے تہی اور ہمارے حکمران بھی۔ اس پر ہم معجزوں کی توقع بھی رکھتے ہیں، Waiting for Allah۔ مگر اللہ کا فرمان تو یہ ہے: انسانوں کے لیے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں، جس کی انہوں نے جستجو کی۔