صحنِ مسجد نبویؐ ہے۔ حضرت دحیہ قلبی ایک نہایت خوبصورت ، وجہیہ چہرہ نیا نیا قبول اسلام اور سرورِ کائنات ؐکی مجلس میں قبول اسلام سے قبل اپنی بیٹی کو زندہ دفن کرنے کا واقع پوری تفصیل کے ساتھ سنا رہے ہیں۔ آقا ؐ کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ حضرت دحیہ قلبی کو دوبارہ واقعہ سنانے کا فرماتے ہیں۔ وہ پھر پوری تفصیل کے ساتھ کہ کس طرح اپنی بیٹی کو بہلا پھسلا کر جنگل کی طرف لے جاتے ہیں۔ اسکی آنکھوں کے سامنے اسکی قبر کھودنا شروع کرتے ہیں۔ سخت گرمی میں پسینہ سے شرابور باپ کو دیکھ کر ننھی بیٹی کہتی ہے۔ کہ بابا چھاؤں میں آ جاؤ اپنے چھوٹے سے دوپٹے سے باپ کا گرد آلود چہرہ صاف کرتی ہے۔ مگر وہ اسکے باوجود اسے گڑھے میں پھینک کر اوپر سے مٹی بھر دیتا ہے۔ اسکی ننھی اور معصوم چیخیں اسکا پیچھا کرتی ہیں۔ مگر اسے اپنی بیٹی پر رحم نہیں آتا۔ حضور سرور کائنات کی ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہے۔ یہ تھا اسلام سے قبل عورت کا مقام ، نہ کوئی عزت،نہ احترام، نہ تحفظ نہ عافیت۔ مگر اسلام کے آنے کے بعد عورت کو وہ تمام حقوق ملے۔ جو کسی بھی مہذب معاشرے میں مل سکتے تھے۔ عزت و احترام، تحفظ و عافیت، وراثت کے حقوق، انسانی حقوق، عورت کو ہر رنگ میں اور ہر حیثیت میں اعلیٰ اور ارفع مقام دیا۔ ماں کی صورت میں اسے گھر میں اتنی اہمیت دی کہ اولاد کیلئے ماں کا احترام اتنا لازم کر دیا کہ فرمایا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ دو اور تین بیٹیوں کے والد کو انکی اچھی تربیت کر کے انکی شادیاں کرنے کے عمل کو اس قدر سراہا گیا کہ سرکار دو عالم ؐ نے جنت کی بشارت دی۔ یہ تو اسلام کی برکت تھی اور نبی کریم ؐکی پاکیزہ تعلیمات کا اثر کہ جس نے عورت کو اعلیٰ وارفع مقام عطا کیا اور بچیوں کے والدین کے دل میں محبت اْنس شفقت اور مروت کے جذبات کے تخم ایزی کی۔ پھر اچانک اس طرح کے ماحول میں جہاں باپ اور بھائی بیٹی اوربہن کی عصمت و عفت کی حفاظت کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہے۔ اسکی تعلیم و تربیت میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا۔ ہمارے اپنے ارض وطن میں لڑکیاں لڑکوں سے تعلیم و تہذیب کے لحاظ سے واضح بر تری لئے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی شعبہ زندگی ایسا نہیں جہاں ہماری ہونہار بچیاں فرائض کا میابی سے ادا نہ کر رہی ہوں۔ پھر یہ یکا یک ایک دل کو ہلا دینے والا نعرہ کہ میرا جسم میری مرضی لگا کر معاشرہ میں ایک ارتعاش پیدا کر دیا جاتا ہے۔ ایک ہنگامہ سوشل میڈیا پر برپا ہے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک ڈرامہ نویس مرد کا ایک بے باک محترمہ کے ساتھ انتہائی قابل اعتراض اور بے ہودہ کلمات کے تبادلے نے معاشرہ کی اخلاقی اقدار کو شدید زک پہنچائی ہے۔ کو ئی مرد کا طرفدار ہے تو کوئی عورت کو سپورٹ کر رہا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ہنگامہ خیزی کسی واضح پلاننگ کا حصہ ہے۔جس طرح مردوں کو اپنے معاملات میں آزادی ہے۔ اس طرح عورت کا بھی حق ہے۔ کہ وہ اپنے معاملات میں آزادانہ فیصلے کرے۔ مگر یہ فیصلے تہذیب و اخلاق اور حسن معاشرت کی عکاسی کرتے نظر آئیں۔ ہمارے لئے تو یہ منظر ہ بڑا سوہانِ روح ہے کہ ایک عورت پاکستانی معاشرہ میں یہ نعرہ لگائے کہ میرا جسم میری مرضی کہ جہاں جب وہ سکول اور کالج جاتی ہے تو اسکا بھائی یا باپ اسے باعزت طریقہ سے چھوڑنے جاتا ہے۔ اسکی ماں دروازہ پر اسکی منتظر رہتی ہے اسکی تعلیم و تربیت کا ہر طرح خیال رکھا جاتا ہے۔ اسکی شادی بڑی دھوم دھام سے کی جاتی ہے۔ یہاں عورت کی گھر میں حاکمیت اس قدر مسلّمہ ہے کہ بعض اوقات مردوں کے دوست احباب "رن مرید" ہونے کا طعنّہ دیتے ہیں۔جسے وہ بیچارہ "خوش دلیّ" سے قبول کرتا ہے۔ ایسے میں یہ نعرہ کہ میرا جسم میری مرضی ان والدین کے دل ہلا دتیا ہے جو ایک بیٹی کی تعلیم و تربیت اسکی نگہداشت اسکی شادی اور عزت و عظمت کے لئے ہر چیز نچھاور کر دیتے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں ایک متوازن سوچ کی ضرورت ہے۔ عورت کو وہ تمام معاشرتی اور وقانونی حقوق اور تحفظ دینے ہونگے۔ جو مرد اپنے لئے مناسب خیال کرتا ہے۔ ورکنگ لیڈیز کو ہر طرح کی ہراسمنٹ کا سامنا ہوتا ہے۔ انکے تحفظ اور عزت واحترام کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ عورت مرد کے مساوی حقوق کی حقدار ہے۔ہمارے معاشرہ میں عورت کو دانسّتہ طور پر وارثت سے محروم رکھا جاتاہے اْس کے وارثتی حقوق کا ہرصورت میں تحفظ کر نا ہوگا۔ معاشرہ کی سوچ بدلنا ہوگی ہمارے ہاں پسند کی شادی ایک بڑا سوشل ایشو ہے۔ والدین کو یقیناً بیٹیوں کی رائے کو اہمیت دینا چاہیے۔ مگر بیٹیوں سے بھی یہ توقع ہے کہ وہ غلط فیصلے نہ کریں گی۔ انکے والدین سے زیادہ کو ن انکا ہمدرد ہوسکتا ہے۔ جذبات میں کئے گئے اکثر فیصلے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح اسکا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنے طویل عدالتی تجربہ کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں کہ پاکستان میں تمام فیملی لاز عورت کے حق میں ہیں۔ بلکہ عدالتوں میں تو یہ یکطرفہ حد تک عورت کو سپورٹ کیا جاتا ہے۔ عورت اگر گھر میں مظلوم ہے تو مرد عدالت میں۔ اس طرح کی صورتحال میں جہاں فیملی لاز اور عدالتیں نسبتاً ترجیحی سلوک عورتوں سے کر رہی ہوں والدین اور بھائی جان نچھاور کر رہے ہوں۔ اس طرح کا نعرہ میرا جسم میری مرضی ایک پوری سوسائٹی کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اسلئے اس نعرہ کے الفاظ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے عورت کے حقوق اور مقام سے انکار نہیں۔عورت ہر رنگ اور ہر روپ میں قابل احترام ہے اس طرح کے نعرے دے کر اْس کے مقام اور مرتبہّ کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔