سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک عدالتی سماعت کے دوران جعلی ادویات بنانے اور بیچنے والوں کے لئے پھانسی کی سزا مقررہونے کی آرزو پر مشتمل ریمارکس دیے ہیں۔ چیف جسٹس‘ جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری ہیلتھ کو طلب کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ادویات کی غیر قانونی درآمد کی اجازت کیسے دی۔ چیف جسٹس نے ادویات خریداری میں عدم شفافیت پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ منشیات سے متعلق اقوام متحدہ کے نگران ادارے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جعلی ادویات کی بھرمار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق غریب ملکوں کی مارکیٹوں میں موجود ادویات کا پچاس فیصد سٹاک جعلی ادویات پر مشتمل ہے۔ ایک عمومی اندازے کے تحت پاکستان میں یہ شرح 20سے 30فیصد کے قریب ہو سکتی ہے۔اقوام متحدہ نے دنیا کے تمام ممالک کو ہدایت کر رکھی ہے کہ ادویات سے متعلق قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور جعلی ادویات کے کاروبار سے متعلق موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ رپورٹ کے مطابق جعلی ادویات کا کاروبار کورئیر سروسز اور عام ڈاک کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے۔ ماہرین نے جعلی ادویات کی نشاندہی میں مدد دینے والے چند نکات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایسی ادویات کے لیبل پر ناکافی‘ غلط اور گمراہ کن تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ یہ ادویات غیر موثر‘ غیر معیاری اور بعض اوقات زہریلی ثابت ہوتی ہیں۔ جس سے مریض کی حالت سنبھلنے کی بجائے بگڑنے لگتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ پوری دنیا میں ہر سال 200ارب ڈالر کی جعلی ادویات مارکیٹ میں فروخت ہو جاتی ہیں۔ لالچ میں اندھے لوگ جعلی ادویات پھیلا کر سالانہ ہزاروں افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ غیر معیاری‘ غیر رجسٹرڈ اور جعلی ادویات کے درجے اگرچہ الگ الگ ہیں تاہم ان کی وجہ سے مریضوں کو جو نقصان پہنچتا ہے اس کے اثرات لگ بھگ یکساں ہیں۔ یہ واقعہ ریکارڈ پر ہے کہ 2012ء میں پاکستان کے دو شہروں میں نشے کی خاطر کھانسی کا شربت پینے کے نتیجے میں 60افراد مارے گئے۔ تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ شربت میں ایک ایسا زہریلا مادہ تھا جو مارفین سے پانچ گنا زیادہ خطرناک تھا۔ اس مادے کو شربت میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ دوسرا واقعہ لاہور شہر کے امراض قلب ہسپتال کا ہے جہاں غیر معیاری گولیاں استعمال کرنے پر 150دل کے مریض جاں بحق ہو گئے۔ ان واقعات کی انکوائری ہوئی‘ کچھ سزائیں ملیں لیکن ادویات کے کاروبار میں شفافیت لانے کے لئے ضروری قانون سازی ہوئی نہ ہی پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا گیاکچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اداروں میں حد سے بڑھی سیاست مداخلت انتظامیہ کو بے بس کر دیتی ہے۔ 2018ء میں ایک ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے پنجاب کے چیف ڈرگ کنٹرولر کو مراسلہ بھیجا جس میں کہا گیا کہ صوبے میں 50کے قریب دوا ساز اداروں کی تیار کی گئی 91اینٹی بائیو ٹک ادویات غیر معیاری نکلی ہیں۔ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت نے ضروری اقدامات نہیں کئے۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ آئے روز جعلی ادویات کے باعث ہلاکتوں کے باوجود دوا ساز اداروں کو قوانین کا پابند نہیں بنایا جا سکا۔ پاکستان میں ریگو لیشن آف میڈیسن بنیادی طور پر دو سطحوں ہوتی ہے۔ادویات کی درآمد،برآمد ،، تیاری اور کوالٹی کنٹرول، یہ تمام شعبے وفاق کی عمل داری میںآتے ہیں۔یہ کام ڈریپ نامی وفاقی ادارہ کرتا ہے۔ اس کے بعد ادویات کی سٹوریج، ہینڈلنگ اور ڈسٹری بیوشن سے متعلق معاملات صوبوں کی عمل داری میں آتے ہیں۔ اس میں صوبائی ڈرگ کنٹرول کا ادارہ بھی شاملہوتا ہے۔حالیہ دنوں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا کردار ادویات کی قیمتیں بے قابو ہونے کے حوالے سے بھی زیر بحث رہا ہے۔اس امر پر شہری حلقے فکر مندی کا اظہار کرتے ہیں کہ متعلقہ اداروں کی نا اہلی ،سستی اور مجرمانہ غفلت شہریوں کو مالی و جانی نقصان سے دوچار کر رہی ہے ۔ مارچ 2018 کے بعد سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں نیشنل ٹاسک فورس بنائی تھی۔: اس فورس نے آٹھ ماہ میں دو ہزار دورے کیے، ،مختلف علاقوں میں چھاپے مارے تاکہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کی تیاری اور فروخت کو روکا جا سکے۔ پاکستان میں فیڈرل ڈرگ کنٹرول اتھارٹی بہت سے حقائق اور دعووں کی تردیدکرتی ہے۔اس کا کہنا تھا ’’پاکستان میں ایسا مسئلہ نہیں ہے، نہ ہی ہمارے پاس کوئی ڈیٹا ہے جس کی مدد سے یہ کہا جا سکے کہ ملک میں جعلی ادویات کا کاروبار زوروں پر ہے۔ یہ صرف مفروضے ہیں۔ حقیقت کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی یہاں کوئی دو دو کمروں کی فیکٹریاں ہیں، جن کو لائسنس جاری کیے گئے ہوں، اور نہ ہی ان سے مریضوں کی اموات واقع ہو رہی ہیں‘‘حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ڈیٹا جمع کرنے کا کوئی رواج نہیں اور نہ ہی سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے وسائل دستیاب ہیں۔ اس وقت ملک میں قریب چالیس ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں جن کے استعمال سے انسانی اموات کا تو کسی کو کوئی علم نہیں لیکن ان کے جو ضمنی اثرات ہوتے ہیں، جو فیڈ بیک مریض دیتے ہیں، وہ کبھی سامنے نہیں آ سکا۔ملک میں کورونا کی وبا نے ایک بار پھر صحت کی سہولیات اور ادویات کے معیار کے متعلق سوالات کھڑے کر دیئے ہیں اس بات کی بلاشبہ سخت ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ جعلی ادویات کے دھندے میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جائے تاکہ لالچ پر قانون کا خوف غالب رہے۔