اسلام آباد ( خبر نگار خصوصی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمر قید کی سزا کی مدت کے تعین سے متعلق نوٹس لیتے ہوئے معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا۔ پیر کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قتل کے مجرم کی سزا میں کمی کی درخواست کی سماعت کے دوران نوٹس لیا۔مجرم کے وکیل ذوالفقار ملوکا نے عدالت کو بتایا کہ ہارون الرشید کو قتل کے 12 مختلف مقدمات میں 12 مرتبہ عمر قید کی سزا ہوئی۔انہوں نے کہاکہ مجرم 1997 ئسے جیل میں ہے اور 22 سال سزا کاٹ چکا ہے ، عدالت عمر قید کی 12 سزاؤں کو ایک ساتھ شمار کرنے کا حکم دے ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بڑے عرصے ایسے کسی کیس کا انتظار تھا جس میں عمر قید کی سزا کی مدت کا فیصلہ کریں۔انہوں نے کہاکہ جیل کی سزا میں دن رات شمار کیے جاتے ہیں اور اس طریقے سے مجرم 5 سال بعد باہر آجاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بہت سی غلط فہمیوں کے درست کا وقت آ گیا ہے ، کیا یہ غلط فہمی نہیں عمر قید کی سزا کی مدت 25 سال ہے ۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جب یہ پتہ نہیں زندہ کتنا رہنا ہے تو اسکو آدھا کیسے کردیں۔انہوں نے کہاکہ عمر قید سزا کی مدت کے تعین کا معاملہ عوامی اہمیت کا ہے ۔بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل، صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور پراسیکیوٹرز جنرل کو نوٹسز جاری کیے ۔عدالت نے معاملے پر لارجر بینچ تشکیل دیتے ہوئے رجسٹرار آفس کو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم بھی دیا۔ پیر کو جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے جعلی دستاویزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران واضح کیا ہے کہ جعلی دستاویزات پر نیب کو کارروائی کا مکمل اختیار ہے ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ نیب قوانین کے تحت جعلی دستاویزات پر 14 سال سزا ہوسکتی ہے ۔ وکیل نیب نے کہاکہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں جعلی میرٹ لسٹ بنائی گئی۔ وکیل نیب نے کہاکہ 272 میں سے 28 افراد کو بغیر اپلائی کیے فائنل لسٹ میں شامل کیا گیا۔ وکیل ملزم نے کہاکہ یہ کیس نیب کا بنتا ہی نہیں، دفعہ 420 اور 471 نیب قوانین سے نکال دیئے گئے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ نیب جعلی دستاویزات پر تعیناتی کرنے اور اس سے فائدہ لینے والوں کیخلاف کارروائی کر سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ سیکرٹریٹ پشاور کیخلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کردی۔ پیر کو چیف جسٹس کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت کی تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ پشاور ہائیکورٹ کہتی ہے اس کے کسی حکم کی توہین نہیں ہوئی،جب عدالت توہین نہیں مان رہی تو زبردستی کی توہین کیسے ہو سکتی ہے ، توہین عدالت کا معاملہ عدالت اور ملزم کے مابین ہوتا ہے ۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 16 کلوگرام منشیات کے ملزم ملزم مظہر اقبال کی نظر ثانی اپیل پر رہائی کاحکم دیتے ہوئے کہاکہ منشیات کے نمونے کیمیکل لیبارٹری تک بھیجتے وقت حفاظتی پروٹوکول کی پیروی نہیں کی گئی۔ٹرائل کورٹ نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی،ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے فیصلہ برقرار رکھا تھا۔