وادی کشمیر ان دنوں شدید سردی کی لپیٹ میں ہے جس کے نتیجے میں شہر ویہات میں لوگ ٹھٹھر رہے ہیںاور صبح وشام لوگوں کا گھروں سے نکلنا محال ہو گیا ہے ۔ سردی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وادی بھر میں متواتر رات کا کم سے کم درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کافی گر گیا ہے اور ٹھنڈ کے نتیجے میں نل لگاتارجم گئے ہیں جبکہ جھیل ڈل سمیت دیگر آبی ذخائر بھی منجمد ہوگئے ہیں۔ جھیل ڈل مکمل طور منجمد، نوجوان کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آئے ۔پانی ذخیرہ کرنے والے واٹر ریزروائر منجمد،گھروں میں موجود پانی کی ٹنکیاں منجمد، پانی کے نل منجمد ہوگئے ۔پانی کے تمام قدرتی آبی ذخائر بھی منجمند ہوچکے ہیں ۔ اسکے علاوہ وادی بھر کی چھوٹی ندیاں اور پانی کے چشموں کی تہہ بھی جم گئی ہے۔وادی بھر میں زیادہ سردی کی لہر جنوبی کشمیر میں محسوس کی جارہی ہے جہاں وسطی اور شمالی کشمیر کی نسبت منفی درجہ حرارت میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوگیا ہے۔بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب سب سے کم درجہ حرارت شوپیاں میں ریکارڈ کیا گیا جو منفی 12.9تھا۔وادی کشمیر میں 13اور14جنوری2021 بدھ اورجمعرات کی درمیانی شب رواں موسم کی سرد ترین رات رہی جبکہ سرینگر میں کم سے کم درجہ حرارت منفی8.4ڈگری سیلشیس ریکارڈ کیا گیا۔کہاجاتاہے کہ گزشتہ 25 برس میں یہ اب تک کا سب سے کم درجہ حرارت تھا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ماہ جنوری1995میں سرینگر میں کم سے کم درجہ حرارت منفی8.3ڈگری سیلشیس ریکارڈ کیا گیا تھا اور یہ ریکارڈ گذشتہ رات کے دوران ٹوٹ گیا۔ سڑکوں اور گلی کوچوں میں موجود برف اس قدسر جم چکاہے کہ یہ پتھر کی مانند ہے۔اس بارپہلے ہی اس کا امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ امسال وادی میں سردی کے ایام بہت کٹھن ہونگے اور درجہ حرارت میں ریکارڈ کمی واقع ہوگی۔ سیاحتی مقام پہلگام میں گذشتہ رات کے دوران کم سے کم درجہ حرارت منفی11.1ڈگری سیلشیس، قاضی گنڈ میں منفی10.0ڈگری۔ککر ناگ میں منفی10.3ڈگری،کپوارہ میں منفی 6.7 ڈگری، مشہور سیاحتی مقام گلمرگ میں منفی7.0ڈگری،لیہہ میں منفی14.0ڈگری جبکہ دراس میں منفی 28.3 ڈگری سیلشیس درج ہوا۔وادی کشمیر میں سخت ترین سردی کادورانیہ چالیس دنوں پرمشتمل ہوتاہے جسے اہل کشمیر ’’چلہ کلان‘‘ کہتے ہیں20 دسمبر کو شروع ہوجاتاہے اور31جنوری کویہ سلسلہ ختم ہوتاہے۔محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جنوری کے مہینے میں سب سے زیادہ منفی درجہ حرارت جو 7ڈگری سے اوپر رہا وہ 1986میں ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ 1991میں اس سے بھی زیادہ قریب منفی 12ڈگری رہا تھا۔1986میں درجہ حرارت منفی 9،1987 میں منفی 8 ڈگری،1991میںمنفی 11.8،1995 میں منفی 8.3،2012میںمنفی 7.8 اور اب 2021 میںمنفی 7.8 ریکارڈ کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ جنوری میںمنفی 6ڈگری درجہ حرارت 24جنوری 2020میں منفی 6.1،10جنوری 2018میں منفی 6.3، 14جنوری 2017میں منفی 6.8 اور 14جنوری 2012کو منفی 7.8ڈگری سیلشیس ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ امسال چلہ کلان کے ابتدائی ایام کے دوران ہی سال گزشتہ کے برعکس سردیوں میں کافی اضافہ درج ہورہا ہے جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ شدید سردی اس قدر پائی جا رہی ہے کہ گاڑیوں کے شیشوں کو بھی کورا لگ جاتا ہے ۔ اس دوران محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 20جنوری تک وادی میں موسم خشک رہے گا اور اس دوران را ت کے کم سے کم درجہ حرارت میں گراوٹ آنی متوقع ہے۔ سرینگر متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا سب سے بڑا شہر اور سرمائی دارالحکومت ہے۔پوراخطہ کشمیربالخصوص شہرسری نگر اپنے جھیلوں، آبشاروں اور مغلیہ باغات کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں پر سالانہ اوسط میں 28 اِنچ بارش ہوا کرتی ہے۔ سر نگرشہر دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر واقع ہے اور مشرق کی طرف سے جھیل ڈل تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کئی جھیلیں اور دلدل موجود ہیں جن میں ڈل، نگین، آنچار، ہوکرسر، گل سر، خشل سر قابل ذکر ہیں۔ سردیوں میں سائبیریا اور دیگر وستی ایشیا کے علاقوں سے ہزاروں کے تعداد میں پرندے نقل مکانی کر کے ان جھیلوں میں قیام کیا کرتے ہیں۔یہاں کے جھیل اور ان میں تیرتے ہائوس بوٹ کے سبب شہر کو اٹلی کے وینس سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہاں کے مغل باغات جیسے پری محل، نشات باغ، شالیمار باغ بھی کافی مشہور ہے۔ اس کے علاوہ قلعہ ہاری پربت جامع مسجد تاریخی لحاظ سے اہم مقامات ہیں۔ وادی کشمیر کی مشہور جھیل،ڈل سری نگرمیں واقع ہے۔جھیل ڈیل دنیا کی چند ممتاز سیرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ چونکہ دریائے جہلم اس کے بیچ سے ہو کر نکلتا ہے اس لیے اس کا پانی شریں ہے۔سرینگر شہر کے بیچ 25 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی اس جھیل میں دلہن کی طرح سجائی گئی ہائوس بوٹس اور شکارے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ڈل جھیل کو دنیا بھر میں اس خطے کی پہچان سمجھا جاتا ہے اور یہ عالمی شہرت یافتہ جھیل موسمِ گرما میں لوگوں کی چہل پہل سے کِھل اٹھتی تھی مگربھارتی فوج کی موجودگی اوراسکی دہشت ووحشت سے اب اس جھیل پر طاری خوفناک سناٹا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، ایسے میں دلکش جھیل ڈل بھی اداس معلوم ہوتی ہے۔ شام ڈھلے یہ جھیل ایک وسیع قبرستان کی مانند لگتی ہے اور اس میں موجود ہائوس بوٹ ساکت قبروں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ اسی جھیل کے شمال میں واقع اور بھارت کی زیر سرپرستی چلنے والا ہوٹل اور کانفرنس سینٹر ایس کے آئی سی سی میں اب بھارتی فوج دندناتی پھرتی نظرآتی ہے ۔ہری نواس اور چشمہ شاہی کے گیسٹ ہائوس بھی جھیل ڈل کے مشرقی کنارے پر واقع زبرون پہاڑی سلسلے پر واقع ہیں اور اب یہ تفریحی مقامات ویران پڑے ہیں۔