80 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن ہر پاکستانی کے لیے گھر بیٹھے واحد تفریح تھی۔ پی ٹی وی کے ڈرامے بے حد مقبول تھے۔ محمد نثار حسین کے لانگ پلے حیران کردیتے تھے۔ مردمومن مرد حق کا عہد تھا۔ سیاسی جبر اور حبس عروج پر تھا۔ پی ٹی وی پر جو کچھ بولا اورسنایا جاتا تھا اس پر سنسر کی ننگی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی تھی۔ بات کہنی اور کرنی بہت مشکل تھا۔ٹی وی پر ایک لانگ پلے دیکھا اور سْنا اور حیران رہ گئے وہ سب جو جبر کے موسم سے آگاہ تھے۔ ڈرامے کا نام تھا "پتْلیاں"۔ ایک کردار کہتا ہے "ان سب کو لوہے کی ٹوپیاں پہنادو۔ یہ سوچتے ہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ سوچنا گناہ ہے۔انہیں دولے شاہ کے چوہے بننا ہوگا"۔ اس ڈرامے کے لکھاری کا نام ڈاکٹر طارق عزیز تھا۔ یہ وہ عہد تھا جب ٹی وی پر اشفاق احمد ، بانوقدسیہ ، امجد اسلام امجد، اور یونس جاوید کا جادو سر چڑھ کر ہول رہا تھا۔ ان بڑے ناموں میں وہ آیا اور اس نے اپنی جگہ بنالی۔ ڈاکٹر صاحب نے جب پی ٹی وی لاہور اسٹیشن سے ڈرامے لکھنے کا آغاز کیا تو ایک دن اْن کی ملاقات نیلام گھر والے طارق عزیز صاحب سے ہوگئی۔ طارق عزیز نے ڈاکٹر طارق عزیز سے کہا"آپ اپنا نام بدل لیں، یہاں صرف ایک ہی طارق عزیز ہے"۔ ڈاکٹر صاحب نے مسکراکر کہا " دیکھتے ہیں"۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے شدید ریاضت کی اور ادب ، شاعری اور ڈرامے میں خود کو منوالیا۔ ڈاکٹر صاحب جب اورینٹل کالج میں طالب علم تھے تو ایک طلبہ تنظیم کے شدید مخالف تھے۔ ایک بار تو اتنے جذباتی ہوگئے کہ ایک ساتھی کامریڈ کے کندھے پربیٹھ کر ہوائی فائرنگ بھی کر ڈالی۔ ڈاکٹر صاحب کی ٹانگیں بچپن ہی میں پولیو کی وجہ سے کام کرنا چھوڑ گئیں مگر انھوں نے کبھی اس کمی کو راہ میں حائل نہ ہونے دیا۔ محبت اور پیار سے برادرم حسن نثار انھیں " ادیبوں کا اسٹیفن ہاکنگ "کہا کرتے تھے۔ میری ایف سی کالج پوسٹنگ ہوئی تو وہاں کے اسٹاف میں ایک سے بڑھ کر ایک نام موجود تھا۔ خوبصورت کالم نگارعطاء الحق قاسمی سے لے کر برادرم اجمل نیازی تک اور پھر عقیل روبی ، سہیل وڑائچ ، امجد وڑائچ اور پھر حسن رضوی سے توفیق بٹ تک۔ مگر مجھے تلاش تھی پروفیسر ڈاکٹر طارق عزیز کی۔ ایف سی کالج کے سنکلیئرہال کے سامنے ایک فوارہ ہے۔ اس کے قریب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ ان کے اردگرد ان کے چاہنے والے طالب علموں کا ہجوم تھا۔ تعارف ہوا اور پھر یہ دوستی کب محبت میں بدل گئی پتہ ہی نہ چلا۔ پھر ایک نیا روزنامہ شروع ہوا تو ہم دونوں نے اسے اکٹھے ہی جوائن کیا۔ ہم دونوں کے مشترک دوست محقق اور دانشور ڈاکٹر مجاہد کامران نے ہمارے گروپ ایڈیٹر اور ایڈیٹر کو وی سی ہاؤس میں کھانے پر بلایا۔ محمود شام اور رئیس انصاری ، ڈاکٹر طارق عزیز اور داکٹر مجاہد کامران کی محبت سے بڑے متاثر ہوئے۔ جب کبھی ہم دونوں حسن نثار صاحب کے فارم ہاؤس بیلی پور جاتے تو شام سے رات اور پھر رات گئے کب لوٹتے ، وقت کی خبر ہی نہ رہتی۔ ایک دن جب دھند اور ٹھنڈ شدید تھی تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ کسی دن کسی نے راستے میں رات گئے ہماری گاڑی چھین کر ہمیں شدید سردی میں سڑک پر اتار دیا تو ہم ٹھنڈ سے مر جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے"یار گلاں ای ایڈیاں مزیدیاں ہوندیاں نیں کہ وقت لنگھن دا پتہ ای نئی لگدا"۔ ایک شام ہم نے بیلی پور جلد رخصتی کی اجازت طلب کی تو حسن بھائی نے کہا کہ کچھ سیاسی لوگ آرہے ہیں۔ ان کے آتے ہی چلے جانا۔ فاروق ستار اورکچھ اور لوگ آگئے۔ ہم نے اجازت مانگی تو فاروق ستار بول پڑے "ڈاکٹر صاحب آپ مل ہی گئے ہیں تو ہم بھلا کیسے اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیں"۔ فاروق ستار چلے گئے مگر ہمیں چھٹی نہ ملی کہ میزبان اور مہمان فلسفہ اور ادب کی بحث میں کہیں دور نکل گئے تھے۔ ایک شام ڈاکٹر صاحب کہ اعزاز میں پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹو کلب میں ادیبوں کی طرف سے ایک ڈنر کا اہتمام تھا۔ ہم سب اوپن ائیر میں تھے۔ فضاء میں خنکی بڑھ گئی۔ سردی کا احساس بڑھنے لگا۔ میں اپنی گاڑی کی طرف گیا اور لانگ کوٹ نکال کر پہن لیا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے "تْسی تیگورباچوف داکوٹ پالیا اے۔ میں کی پاواں" ؟ایک قہقہہ پھوٹااور محفل کشت زعفران بن گئی۔ استاد ، محقق ، نقاد ، شاعر ، مصور ، ڈرامہ نویس ، یاروں کا یار، مشفق باپ اور متوازن شوہر، ڈاکٹر صاحب ہر رشتے کو نبھانا جانتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی اپنے ایک ہم عصر ڈرامہ نگار سے رومانوی رقابت پی ٹی وی میں چلتی رہتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اس دوست کے اور اپنے قصے مزے لے لے کر سنایا کرتے اوران کے دوست انھیں پہروں انجوائے کرتے۔ میری بیٹی مریم کو ماس کمیونیکیشن کی اسکرپٹ اور پروڈکشن پر ایک گروپ اسائنمٹ تیار کرنا تھی۔مریم اور اس کے کلاس فیلوز کو جو لیکچر ڈاکٹر صاحب نے دیا وہ میرے لئے حیران کن تھا۔ میں نے کہا "آپ اپنے تجربے سے نوجوان نسل کو کچھ سِکھائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج کی نوجوان نسل پہلے ہی سے سیکھی ہوئی ہے۔ وہ کچھ بھی سیکھنا نہیں چاہتے۔ مریم نے کہا " کیا نظریاتی تقسیم ختم ہوگئی ہے؟" کہنے لگے۔ " یہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ میرا بیٹا کبھی مذہبی انتہا پسند نہیں بن سکتاکہ میرے نظریات سے وہ بھی اثرلیتا ہے اور میرے طالب علم بھی۔ نظریاتی تقسیم کسی نہ کسی رنگ و شکل میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شاعری کا مجموعہ "جلاوطن "میرے سامنے ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک غزل اور نظم ہے۔ رات گئے احباب مسافر بن جاتے ہیں ساتھ ہمارے خواب مسافر بن جاتے ہیں آ جاتی ہیں جب نہ ٹلنے والی گھڑیاں نغمہ ، شعر ، کتاب ، مسافر بن جاتے ہیں ٭٭٭ کوئی امید ، صدا، حرف ِدْعا کچھ بھی نہیں گویا اس دور میں جینے کا مزا کچھ بھی نہیں