آزادی مارچ پہلے دن جلسہ تھا‘ دوسرے دن‘ تیسرے دن بھی وہیں جما رہا تو ازخود دھرنا ہو گیا۔ بنا کسی اعلان کے۔ دھرنا آنست کہ خود بگوید نہ کہ کتنے دن رہتا ہے‘ یہ پتہ نہیں دھرنے میں مولانا کی آواز الگ تھی‘ شہباز کی پرواز الگ۔ شہباز نے رہبر کمیٹی کے ایجنڈے کو ایک طرف رکھا اور صدا لگا دی‘ مجھے وزیر اعظم سلیکٹ کر لو‘ چھ ماہ میں معیشت ٹھیک نہ کر دی تو میرا نام نیازی رکھ دینا۔ یعنی شہباز شریف نیازی۔ پھر نواز شریف کو بھی نام کے ساتھ وضاحتی بریکٹ لگانا پڑے گی۔ یعنی نواز شریف (نان نیازی) دھرنے میں سب نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے یا مطالبے کی تائید کی لیکن شہباز نے اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا‘ اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے اور موعودہ حسن کارکردگی کے تسلی بخش ہونے کا یقین دلاتے رہے۔ ٭٭٭٭٭ معیشت کی بات کا جہاں تک تعلق ہے تو شہباز کا یہ ’’ٹینڈر‘‘ پرکشش نہیں ہے۔ اصل میں تو معیشت کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ جس طرح کشمیر بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کشمیر گو وینٹ گان ہو گیا۔نو پرابلم۔ معیشت بھی گو وینٹ گان ہو گئی۔ جسٹ نو پرابلم۔ معیشت کوئی مسئلہ ہوتی تو سمجھدار لوگ اس کی حالت پر بات کرتے۔ کسی نے کی؟ نہیں کی۔ ہاں ‘ نواز دور میں مسئلہ تھی‘ چنانچہ سمجھدار لوگ بار بار بات کرتے تھے۔ اب کوئی سمجھدار کچھ نہیں کہتا تو سمجھ لیجیے کہ معیشت کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ شہباز نے ’’سلیکٹ‘‘ ہونا ہے تو کوئی پرکشش پیکیج آفر کریں۔ ٭٭٭٭٭ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ شہباز کیوں نہیں لگاتے؟ ایک لیگی کارکن سے بات ہوئی تو اس نے جواب دیا کہ شہباز صلح پسند ہیں۔کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ ارے کیا بات کر رہے ہو بھائی۔ ووٹ کی عزت سے کسی کی ناراضگی کا سوال کہاں سے آ گیا۔ بولے‘ یہ مت پوچھو‘ یہ بتانے والی بات نہیں ہے۔ عرض کیا ایسی بات ہے تو شہباز شریف ووٹ کو عزت مت دو کا نعرہ کیوں نہیں لگاتے۔ بولے‘ اب جانے بھی دیں اس بات کو چھوڑ دیں کوئی اور بات کرو۔ دھرنے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ کہا جا رہا ہے۔ کتنے لوگ ہوں گے۔ جواباً سوال عرض کیا کہ کیا جواب دوں‘ محب وطن والا کہ غیر محب وطن والا۔ بولے محب وطن والا، ٹھیک ہے تو سنئے! دھرنے میں چار سے چھ ہزار لوگ ہوں گے۔ حیران ہوئے‘ صرف چار سے چھ ہزار۔ کہا‘ جی‘ مختلف جواب دے کر کیوں غیر محب وطن بنوں۔ اور ابھی تو میں نے حب الوطنی کی آنچ ذرا دھیمی رکھی ہے۔ ورنہ تو فیصل واوڈا کی بات دہراتا کہ دھرنے میں چند درجن لوگ ہیں لیکن کیا کروں‘ ابھی حب الوطنی اتنی بھی پختہ نہیں ہوئی۔ ٭٭٭٭٭ دھرنے میں مولانا نے فرمایا’’اتنا بڑا ہجوم ہے،چاہے تو وزیر اعظم کو گرفتار کر لے لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے۔ اس پر بہت لے دے ہوئی اور ٹھیک لے دے ہوئی۔ مولانا کو ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دینا چاہئے تھا۔ اب دیکھیے‘ دھرنا تو عمران خان نے بھی دیا تھا۔ کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ وزیر اعظم کو گرفتار کر لیں گے۔ کہا تو بس اتنا کہ وزیر کو گریبان سے پکڑ کر باہر پھینک دوں گا۔ مولانا کو عمران سے سبق لینا چاہیے‘ ان جیسا مہذب لہجہ اور زبان اپنانی چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ تحریک انصاف نے محب وطن ،غیر محب وطن کی اضافی فہرست جاری کر دی ہے۔ ایک وزیر نے اے این پی‘ مولانا اچکزئی کے بارے میں جو ارشادات‘ فرمائے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ تینوں ہی غیر محب وطن ہیں۔ یہ اضافی فہرست اس لئے ہے کہ نواز شریف اور ان کی پارٹی (ماسوائے شہباز شریف) تو ڈان لیکس کے زمانے سے غدار اور غیر محب وطن قرار پا چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس سے بھی پہلے کی غیر محب وطن ہے۔ ہوشیار بابا کے دور میں اس جماعت کو سکیورٹی رسک قرار دیا جا چکا ہے۔ گویا اب محب وطن اور غیر محب وطن کی صف بندی مکمل ہو گئی۔ محب وطن جماعتیں فی الوقت دو ہی ہیں۔ تحریک انصاف اور قاف لیگ پرویز مشرف کی قدر مشترک دیکھی جائے تو دراصل یہ ایک ہی جماعت ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ قاف لیگ کو تحریک انصاف (گجرات ونگ) کہا جا سکتا ہے متحدہ قومی موومنٹ فی الحال پروبیشن پر محب وطن ہے لیکن یہ محب الوطنی کسی بھی وقت منسوخ کی جا سکتی ہے۔ یعنی تاحکم ثانی والی محب وطنی ہے۔ جماعت اسلامی گرے لسٹ میں ہے۔ جب تک کشمیر پر جلسے جلوس کرتی رہے گی۔ اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔ جونہی معیشت ‘مہنگائی‘ بدامنی کا ایشو اٹھائے گی‘ آئین قانون جمہوریت وغیرہ کی بات کرے گی‘ کالی فہرست میں ڈال دی جائے گی، ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ شیخ جی کی وزارت میں اوسطاً ہر ہفتے ریل کے دو حادثے ہوئے۔ کسی ستم ظریف نے انہیں ’’ایوارڈ‘‘ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انتظار کیا ہوتا۔ تھوڑے دن کی بات ہے ۔ شرح چار بلکہ چھ حادثات فی ہفتہ ہو جائے گی۔ مطالبہ ذرا جلدی کر دیا گیا ۔تاریخ سازی تو یہ بھی ہو گئی کہ پہلی بار پتہ چلا کہ ٹرینوں کی زنجیریں کام نہیں کرتیں۔ جتنا چاہو۔ کھینچتے رہو۔ جلتی ٹرین چلتی ہی رہے گی۔ چلتی کا نام گاڑی سنا تھا‘ اب جلتی کا نام گاڑی بھی سن لیا۔ ادھر پی ٹی آئی کے دو رہنمائوں سلیم نقوی اور حلیم شیخ کی ریل حادثے کے حوالے سے عوام کی طرف سے غیر متناسب عزت افزائی کی خبریں بھی موضوع سخن ہیں۔ اسے انگریزی میں Omenکہتے ہیں۔