جماعت اسلامی نے ’’منفرد‘‘ اعلان کیا ہے۔ کہا ہے کہ وہ مہنگائی کے خلاف تحریک چلائے گی۔ لاریب۔ اس کے پاس منظم اور مستعد کارکنوں کی کھیپ ہے۔ تحریک چلا سکتی ہے لیکن چلے گی نہیں۔ منفرد اعلان اس لئے کہ مہنگائی کے خلاف یوں تو ہر جماعت بول رہی ہے لیکن تحریک چلانے کی بات کسی نے نہیں کی‘ صرف جماعت اسلامی نے یہ تفردکیا۔ تحریک چلے گی، اس لئے نہیں کہ موجودہ حکومت نے نیب کو آگے کر دینا ہے۔ سراج الحق کو ڈرنا چاہیے اس دن سے جب نیب ان کا دبئی میں’’ٹاور‘دریافت کر لے گا اور پھر ڈرنا چاہیے اس دن سے جب جاوید اقبال کا یہ دندناتا ہوا بیان آئے گا کہ درویشی کے دعویدار لیڈر بتائیں‘ انہوں نے یہ ٹاور کیسے کھڑا کیا۔ لندن سے شہزاد اکبر کا ٹویٹ آئے گا کہ انہوں نے سراج الحق کی اربوں کھربوں کی منی لانڈرنگ کی ٹریل پکڑ لی ہے اور آیف آئی اے لیاقت بلوچ کی کروڑوں اربوں روپے کی ’’ٹی ٹی ز‘‘ کا انکشاف کرے گی اور فالودے ٹھیلے والوں کے اکائونٹس سے کئی ارب روپے برآمد کر لے گی جو دراصل جماعت اسلامی کے درویش صفت رہنمائوں نے جمع کرائے تھے۔ لاٹھی گولی سے تحریکیں کچلنے کی کوششیں ہر حکومت نے کیں اور ناکام رہیں لیکن نیب کا ڈسا تو پانی مانگنے سے پہلے ہی چل بستا ہے‘ اس کا مقابلہ جماعت اسلامی کیسے کرے گی۔ ٭٭٭٭٭ فالودے ٹھیلے والوں سے مخالف لیڈروں کا مکو ٹھپنا تحریک انصاف کے دماغ ر سا کا آئیڈیا تھا۔ بتایا گیا کہ زرداری وغیرہ نے اربوں روپے ان بے چاروے فالودے ٹھیلے والوں کے اکائونٹس میں جمع کرائے۔یہ معاملہ فاش ہوا تو کتنا غل مچا۔ اب کچھ مہینوں سے ان اکائونٹس کی کوئی خبر نہیں آ رہی۔ کوئی خاموشی سی خاموشی ہے۔ کمال کی انجینئرنگ تھی۔ بہرحلا مطلوبہ نتائج برآمد نہیں کر سکی۔ ایک بار تو البتہ کیچڑ اچھالنے کے ریکارڈ قائم کر دیے۔ ہتھیار کند نہیں ہوا۔ جماعت اسلامی کو تحریک چلانا ہے تو یہ پہلو بھی زیر غور رکھے ایسا نہ ہو اس کے درجنوں لیڈر نیب کی حوالات میں بند ہوں اور تحریک کا غنچہ بن کھلے مرجھا جائے۔ ٭٭٭٭٭ مہنگائی اگرچہ قیامت کی ہے لیکن غل قیامت کا نہیں۔ میڈیا ڈرے سہمے انداز میں خبریں چھاپتا ہے۔ ایک اخبار نے آج چھاپا ہے کہ ریاست مدینہ کے دعویداروں نے سال بھر میں کوئی شے نہیں چھوڑی جس کی قیمت میں 25سے لے کر 150فیصد تک اضافہ نہ کیا ہو۔ بجلی گیس کے بل تین گنابڑھا کر حکومت نے ایک طرف تو لوگوں کی تنخواہ اور آمدنی آدھی کر دی۔ پھر اس آدھی آمدنی کو اشیائے صرف کے نرخ بڑھا کر چوتھا حصہ بھی نہیں رہنے دیا۔ لوگ محاورے والی روکھی سوکھی کھانے پر مجبور ہو گئے تو حکومت کو یہ بھی گوارا نہ ہوا اور اب روکھی سوکھی کے لالے پڑ گئے۔ ٭٭٭٭٭ آٹے کا بحران پیدا ہوا یا پیدا کیا گیا؟ سراج الحق کا مطالبہ ہے کہ تحقیقاتی کمشن بنایا جائے۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ بحران مصنوعی ہے۔ پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ 40ہزار ٹن گندم افغانستان بھیج کر بحران پیدا کیا۔ بلاول ایک روز پہلے کہہ چکے ہیں کہ بحران خود خان صاحب نے اپنے پیاروں کو نوازنے کے لئے پیدا کیا۔ ایک بحران ابھی آنا ہے۔ تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ گندم کل پرسوں میں تو نہیں آئے گی۔ مہینے لگیں گے اور جب آئے گی‘ تب پاکستانی گندم کی نئی فصل بھی آ چکی ہو گی اور اسے اگانے والے کاشتکار مارے جائیں گے۔ یعنی درآمد غیر ضروری ہوئی لیکن تحریک انصاف میں بیٹھے تاریخ کے طاقتور ترین مافیا کئی ارب کما چکے ہوں گے۔ زرعی معیشت کی بربادی کا ایک نیا اور زیادہ المناک باب لکھنے کی تیاری مکمل ہے۔ گندم سے مال کمانے والا مافیا اس مافیا کا ساجھے دار ہے جس نے کئی ماہ پہلے چینی کی قیمت میں 22سے 25روپے کلو کا اضافہ کر کے 165ارب روپے کمائے(اب سنا ہے 30روپے کا اور مہنگی کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے)یہ رقم عوام کی جیب سے نکلوائی گئی‘ زبردستی اور بلا جواز لیکن کسی میں یہ ہمت نہیں کہ 165ارب روپے کی اس واردات کو ’’انصافی ڈاکہ‘‘ قرار دے سکے۔ ایمانداروں کی حکومت ہے‘ ڈاکے کی تہمت کون لگا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ بزدار سرکار نے ہسپتالوں کے فنڈز کی تیسری قسط بھی روک لی جس سے ادویات کی خریداری کے علاوہ ہسپتالوں کے یوٹیلٹی بلز کی ادائیگیاں بھی خطرے میں پڑ گئیں۔ یعنی پنجاب کو بھی طبی میدان میں پختونخواہ بنانے کا منصوبہ ایک منزل اور طے کر گیا۔چھ سالہ دور حکومت میں پختونخواہ کے ہسپتال موہنجودوڑ بن گئے۔ تحریک انصاف کے اپنے منصف اعلیٰ نے اپنے آخری مہینوں میں صوبے کے ہسپتالوں کے بارے میں کچھ ایسے ہی ریمارکس دیے تھے پختونخواہ کے مریض ناچار پنجاب آنے لگے۔ اب سوال یہ ہے کہ پنجاب کے مریض کدھر جائیں گے؟ آزاد کشمیر کا رخ کریں گے؟ ٭٭٭٭٭ وہ وزیر صاحب جو پائوں کا پہناوا لے کر ٹی وی پروگرام میں آئے تھے اور بھرے پروگرام میں پائوں کے اس بھاری پہناوے کو میز پر سجا دیا تھا‘ پھر خبروں کا موضوع ہیں۔ خبر ہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی کا الیکشن امریکی شہری ہونے کی حیثیت میں لڑا چنانچہ نااہلی کا خطرہ ہے۔ ان محترم کی لندن میں اتنی جائیدادیں ہیں کہ خود انہیں بھی نہیں معلوم کتنی ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ اس کا بال بھی بیکا نہیں ہو سکتا۔ البتہ کچھ دن خبروں کی صورت پریشانی رہے گی۔آج نہ ہوئے ثاقب نثار‘ پہلے ہی ان کی امریکی شہریت ’’ریگولرائز‘‘ کرکے پریشانی کا گربہ پہلے ہی دن کشتن کر دیتے‘ جیسا کہ انہوں نے اسلام آباد کی ایک تین سو کنال کی ناجائز’’کٹیا‘‘ کو ریگولرائز کر کے معاملہ صادق و امین کر دیا تھا۔