چلیے آج اس نقشِ جمیل کی بات کریں جس کا نام جمیل نقش تھا۔ اور اس حوالے سے اپنے دیس کی اس تخلیقی روایت کو یاد کریں جو مرتی جا رہی ہے۔ جمیل نقش کی موت کی خبر نے مری کئی کیفیتیں تازہ کر دی ہیں۔ میں اپنی چھت سے اسے اپنی چھت پر سرگرم عمل دیکھ سکتا تھا۔ بارہ برس میں نے کراچی کے طارق روڈ پر تنہا گزارے ہیں‘ چند دوستوں کے ساتھ۔ اس گھر کا نمبر 120-u-2تھا۔ اس حوالے سے وہ نوجوان ادبی حلقوںمیں یو ٹو کے نام سے مشہور تھا۔ می ٹو کی طرح نہیں شاید اس امریکی جہاز کی یاد میں جو پشاور سے اڑا تھا اور جسے روسیوں نے مار گرایا تھا۔ مرے گھر کا نمبر 120تھا تو ان کا 122ہو گا uکے بجائے Sیا Tہو گا۔ اس چھت سے دو گھر نظر آتے تھے۔ ایک نوجوان جواں مرگ شاعر اور ادیب صغیر ملال کا دوسرا جمیل نقش کا۔ یہ کوئی محفل آرا شخصیت تو نہیں تھے۔ مگر اتنا جانتا ہوں کہ ادیبوں کا ان کے ہاں بھی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ بس یہی وہ بات ہے جو میں آج یہاں کرنا چاہتا ہوں۔ یہ زمانہ تھا جب فنون کے مختلف شعبوں میں قریبی تخلیقی رابطہ تھا۔ کراچی سے ’’سیپ‘‘ نام کا ادبی جریدہ نکلا تو اس کا ٹائٹل جمیل نقش بنایا کرتے تھے۔ ہم لاہور میں ان سے اسی حوالے سے واقف ہوئے۔ ہر تصویر میں ایک کبوتر ضرور ہوتا تھا۔ میں نے چھت پر انہیں کبوتر اڑاتے بھی نہیں دیکھا کہ یہ کہوںوہ اپنے شوق کا اظہار اپنے فن میں کیا کرتے تھے۔ یار لوگوں نے تو علامہ اقبال کے کبوتر بازی کے شوق کو بھی ان کے شاہین کے تصور سے ملا ڈالا ہے۔ تخلیقی دنیا میں ایسے بہت سے نکتے اچھالے جاتے ہیں۔ بہرحال ان کا ایک تخلیقی رابطہ شہر کے ادیبوں سے بڑا گہرا تھا۔ وہ ان سے کتابوں کے ٹائٹل بھی بنوایا کرتے تھے۔ لاہور میں یہ کام بھی سب آرٹسٹوں نے کیا ہے‘ چغتائی سے لے کر صادقین تک یہ پاکستان بننے کے بعد کی نسل تھی جسے یہ حقیقت ورثے میں ملی تھی کہ تخلیق کے سب شعبوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یہ تعلق قائم رہتا ہے تو معاشرے کا تخلیق جوہر پھلتا پھولتا ہے۔ لاہور میں عبدالرحمن چغتائی کا بڑا کام ہی غالب اور اقبال پر ہے۔ شہر کے ادیب انہیں ملنے جایا کرتے تھے۔ شاکر علی پاک ٹی ہائوس کی محفلوں کی جان تھے۔ صادقین آئے تو انہوں نے تو ادب اور مصوری کو ملا ڈالا ۔ ابتدا میں کتابوں کے ٹائٹل حنیف رامے بنایا کرتے تھے جن کے ہاں مصوری ‘ خطاطی ادب اور تہذیبی مکالمے کی روایت ایک ہو گئی تھی۔ آخری دنوں میں ہم نے یہ کمال ‘ اسلم کمال میں دیکھا ہے۔ میں اکثر سوال کرتا ہوں کہ جب آرٹ اور کمرشل آرٹ کی تمیز مٹ جاتی ہے تو معاشرے سود وزیاں کے ان بکھیروں میں الجھ جاتے ہیں جہاں تخلیقی انسان پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایک زمانے میں مجھے یہ خیال بہت تنگ کرتا تھا کہ جب ہماری مصوری آرٹ کلکٹروں کی محتاج ہو کر رہ جائے گی تو کہیں آرٹسٹ ان کے ذہن کا اسیر تو نہیں ہو جائے گا جن کے پاس دولت ہوتی ہے۔ اس کی تخلیقی صلاحیتیں اس سانچے میں تو نہیں ڈھل جائیں گی جو دولت کی جھنکار سے جنم لیتی ہیں۔ یہ سوال کوئی مجرد یا خیالی سوال نہ ہو گا۔ ضرور اس کے پیچھے کوئی بات ہو گی۔ میں نے بہت سے نئے آرٹسٹوں کو اس پھندے کا شکار ہوتے دیکھا ہو گا۔ اس ٹریپ میں پھنسا دیکھا ہو گا۔ مجھے اس زمانے کی ایک فلم ٹریپ یاد آئی جس پر ہم ادب کے طالب علم گھنٹوں بحث کرتے تھے۔ یہ پھندے کیا ہیں جو پائوں کو جکڑ لیتے ہیں۔ میں سوچتا تھا پاکستان کی یہ نسل کیا کمال کے لوگ تھے جن کے لئے اصل دنیا فنون کی دنیا تھی۔ آپ اس زمانے کے موسیقاروں ‘ادیبوں‘مصوروں میں بہت گہرا رابطہ دیکھیں گے۔ یہ رابطہ محض سماجی نوعیت کا نہیں گہرے تخلیقی انداز کا تھا۔ لگتا تھا یہ ایک دنیا کے لوگ تھے۔ ریڈیو پاکستان کی کنٹین چاہے لاہور میں ہو یا کراچی میں آرٹسٹوں کے ٹھکانے بن جاتی تھیں۔ مجھے ڈر تھا کہ آرٹ اگر کمرشل بن جائے تو قوم کی تخلیقی صلاحیتیں مر جاتی ہیں اور کاروباری صلاحیتیں ہر چیز پر چھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اچھی بات ہے‘ گلشن کا کاروبار چلتے رہنا چاہیے مگر مرا ڈر یہ ہے کہ جب کسی قوم کی تخلیقی صلاحیتیں فنون لطیفہ میں مرتی ہیں تو وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی مردہ ہو جاتی ہے۔ آج بھی امریکہ میں دیکھیے‘ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ کہیں امریکیوں کے اندر تخلیق و اختراع کا مادہ یورپ یا دنیا کی دوسری اقوام سے کم تو نہیں ہو گیا وہ اپنے نظام تعلیم میں ایسے طریقے ڈھونڈتے ہیں جو ان مردہ ہوتی صلاحیتوں کو جلا دے تاکہ وہ اقوام عالم کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ جو کھلونے بنتے ہیں کہ ان بلاک کو جوڑ کر کوئی سٹرکچر بنائو یا چند پرزوں کو ملا کر کوئی بامعنی ایجاد کی شکل دو مثلا پلاسٹک کے ان ٹکڑوں سے موٹر کار بنائو تو اس کا مطلب بچوں کو صرف کھیل میں مصروف کرنا نہیں ہوتا‘ بلکہ اس کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں ہوتے کہ ان کے اندر کا تخلیقی انسان نمو پائے۔مرا ایمان ہے کہ پاکستان کی پہلی نسل نے اس جذیہ تخلیق کے ساتھ اس ملک کی تشکیل کا آغاز کیا تھا اور کیا خوب آغاز کیا تھا۔ اب یہاں ممکن ہے کہ میں ایک پورا باب اس موضوع پر باندھ دوں کہ ہم نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کس طرح دولت کی دوڑ میں شریک کیا۔ ہماری اب جو مصوری ہے یا موسیقی ہے یہ ہماری تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کم ہے اور کاروباری جذبے کا اظہار زیادہ ہے حتیٰ کہ شاعری بھی۔ اس طرح تو قومیں بانجھ ہو جاتی ہیں۔ پرفارمنگ آرٹ یا شوبز نے ہمیں کس کام پر لگا رکھا ہے۔ جب موسیقی شوبز بن جائے اور ان معنوں میں پرفارمنگ آرٹ بن جائے کہ اس کا تعلق موسیقی سے کم اور پیشکش سے زیادہ ہو تو ایسا کلچر تشکیل پاتا ہے جو قومی روح کا سچا اظہار نہیں ہوتا۔ پھر میں سوچنے لگا کہ یورپ میں بھی تو فنکاروں کے شہ پارے ارب پتی آرٹ کلکٹر ہی خریدتے ہیں تو کیا میں یہ طے کر دوں کہ جس فن کو اپنی پذیرائی کے لئے خریداروں کی ضرورت ہے وہ فن ہو ہی نہیں سکتا نہیں ایسا نہیں اگر فن کے یہ مداح فن پارے اکٹھے کرنے کو اپنا اعزاز سمجھیں تو یہ اور بات ہے۔ اور اگر وہ اپنی مرضی اور خواہش کا فن تخلیق کرانا چاہیں تو یہ دوسری بات ہے۔ ہمارے ہاں ہر شعبے میں ایک پروموٹر سنڈروم پایا جاتا ہے۔ جو کوئی فلاحی اور رفاعی کام بھی کرتا ہے وہ اسے اپنے ڈھنگ کے مطابق چاہتا ہے۔ بعض دینی تحریکیں اس لئے مر گئیں کہ ان کے جو اقتصادی پشت پناہ تھے وہ اسے اپنے شوق اور ذوق کے مطابق دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ نہیں کہ اس کام کو وہ داعیان دین پر چھوڑ دیں اور خود کو صرف مالی معاونت تک محدود رکھیں۔ جمیل نقش کے حوالے سے کتنا دور نکل گیا ہوں۔ آج میںنے کسی ٹی وی چینل پر شاہد رسام کو بات کرتے سنا ہے ۔شاہد خود ایک خوبصورت آرٹسٹ ہے‘ اس نے مگر اپنی گفتگو کا اختتام جمال احسانی کے ایک شعر پر کیا ہے۔ یہ ایک ہی قبیلے کے لوگ تھے ۔لاہور کی فضا کا تو میں نے ذکر کیا۔ اس وقت مصوری کی بڑی روایت یہاں یہ تھی نیشنل کالج آف آرٹس اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں دور دور سے لوگ کھینچے آتے تھے جمیل نقش بھی ہندوستان سے آئے تو یہیں کا رخ کیا ان دنوں حاجی شریف مائینچرآرٹ کا ایک مسلم نام تھا۔ اتنا ہی بڑا جتنا چغتائی‘ شاکر علی یا صادقین کا ہو سکتا ہے۔ وہ اپنے فن کے ماہر تھے۔ جمیل نقش نے ان سے تربیت حاصل کی ان دنوں پاکستان بھر میں مصوری کی تربیت کا اورکوئی ادارہ نہ تھا جو ادارے بعدمیں کراچی میں بنے وہ نجی تھے۔ ان اداروں کی اپنی محدودیت ہوتی ہیں۔برصغیر میں ایک کلکتہ کا دبستان تھا۔ مشرقی پاکستان میں زین العابدین اسی سکول کے نمائندہ تھے۔ کسی کو یہ نام اب یادہے؟۔ خاص کر قحط بنگال پر ان کی ایک تصویر تو گویا مثال کے طور پر پیش کی جاتی تھی۔ پاکستان کا منظر نامہ بڑا توانا تھا۔ میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے۔ پھر اس کے بعد جن لوگوں کے ساتھ زندگی کی ہے۔ ان پر بھی فخر ہے۔ اکثر ہوتا عبیداللہ علیم مری طرف آتے تو جاتے ہوئے کہتے ذرا جمیل نقش کو بھی دیکھتے چلیں۔ مجھے اعتراف ہے ان کی ملاقاتیوں کا حلقہ بوجھ مختلف تھا۔ یہ مگر وہ دن تھے جب نہ کوئی نظریاتی اختلاف رکاوٹ بنتا تھا نہ اسلوب حیات‘ بس آدمی کو تخلیقی ہونا چاہیے۔ یہ جو مرا یار جمی انجینئر ہے۔ پارسی ہے۔ یہ بھی لاہور سکول آف آرٹ سے پڑھا ہواہے۔ پہلا غیر مسلم ہے جس نے قرآن کی خطاطی کی ہے کہ پاکستان کے جوہر کی تلاش ایسے ہی ہو سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار پاکستان ٹی وی نے ایک مذاکرہ کرایا۔ کیا کیا لوگ اس میں موجود تھے۔ میزبانی مجھے سونپی گئی آرٹ اور کمرشل آرٹ خالص آرٹسٹ اور ٹی وی پر لکھنے والے بھی موجود تھے۔ میں نے عرض کیا یہ سوال تب پیدا ہوتا ہے جب معاشرہ منقسم ہو جاتا ہے۔ میں نے غالباً diaintegrate کا لفظ استعمال کیا۔ جب معاشرہ ایک ہوتا ہے تو فردوسی دربار کا شاعر بھی ہوتا ہے اور ادب کی دنیا کا عظیم نام بھی۔ کئی مثالیں دے ڈالیں۔ شور پڑ گیا کہ یہ اس نے معاشرے کے منقسم ہونے کی بات کی ہے۔74ء کی بات ہو گی بڑا شور اٹھا۔ آج بھی شاید معاشرے میں دراڑیں پڑ چکی ہے۔ چلتے چلتے میں آپ کو جمیل نقش کے صدقے ایک نقشِ جمیل بتاتا جائوں اور وہ یہ کہ پاکستان دوبارہ تب ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا جب اس کی تخلیقی صلاحیتیں اس کی روح کے مطابق تازہ ہوں گی۔ دوبارہ زندہ ہوں گی۔ ہم بڑے سیانے بنے تھے مگر ہم نے کاروباری بن کر اپنے اصل جوہر کو کھو دیا ہے۔ اسے زندہ کیجیے ‘ اگر آپ پاکستان کا احیا چاہتے ہیں۔