دھوکہ، فریب، لالچ، جھوٹے وعدے، سبز باغ، بے عمل گفتگو، ریا کاری، منافقت، غرض کیا کچھ نہیں ہے جو جمہوری سیاست میں سکہّ رائج الوقت نہیں رہا۔ وہ فرعون صفت قوتیں جو صدیوں سے طاقت کی بنیاد پر ہرعلاقے کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند کر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھا کرتی تھیں ، ان نمرودوں، فرعونوں اور سکندروں کو جب یہ اندازہ ہوا کہ اب حکومت کرنے کیلئے صرف اسپِ تازی اور توپ خانہ کافی نہیں،کیونکہ لوگ اب جم غفیر کی طرح بادشاہوں کے مقابل آکر کھڑے ہو رہے ہیں ، توایسے حالات دیکھ کر، ان عیاّر صفت قوتوں نے اپنا غلبہ قائم رکھنے کے لئے پوری دنیا کے عوام کو ایک ’’فریبِ شرکتِ اقتدار‘‘ دیا ،آج جس کا نام ’’جمہوریت ‘‘ ہے۔ انقلابِ فرانس کے دوران طاقتور اشرافیہ کو اپنی جانیں بچانا مشکل ہو گئیں، لوگ ہر صاحبِ ثروت کی گردن اڑا دیتے، بادشاہ کا سر تیز دھار آلے سے کاٹا گیا اور ہجوم اس کے ساتھ فٹ بال کی طرح کھیلتا رہا، اس کی لاڈلی بیوی’’ میری این ٹائینٹ‘‘ (Marie Antoinette) جس کا یہ فقرہ تاریخ کا حصہ ہے کہ ’’اگر روٹی نہیں ملتی تو لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے‘‘،اسے بھی ایک بڑے ہجوم کے سامنے ذبح کر دیا گیا۔ اس عوامی غم و غصے کے ماحول میں جب بادشاہت کی جگہ ، الیکشن، ووٹ، رائے اور نمائندگی جیسی خوش کن تراکیب پیش کی گئیں تو عوام کے اجتماعی غصے کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ورنہ یہ طوفان اصل مقتدر قوتوں کے ٹھکانے جلا کر بھسم کر نے والا تھا۔ اقبال نے ابلیس کی مجلس شوریٰ میں اس تبدیلی کا نقشہ ابلیس کی زبانی اس طرح کھینچا ہے ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب کبھی آدم ہوا ہے خود شناس و خودنگر دنیا کے ہر جمہوری ملک کی اپنی ایک مقتدر قوت (Establishment) ہوتی ہے اور پورا جمہوری نظام اس کی تخلیق ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کا’’کارپوریٹ سرمایہ دار‘‘ گروہ اصل طاقت ہے جس کے اربوں ڈالر سے پارٹیوں اور سیاست کا کاروبار چلتا ہے۔ ان ملکوں کی نہ صرف جمہوری بلکہ عسکری قوت بھی مقتدر قوت (Establishment)کے اشارے پر ملکوں پر حملہ کرتی ہے اور کانگریس یا پارلیمنٹ ،پُرفریب جمہوری نعروں اور انسانی حقوق کے خوش نما لبادے میں اس عالمی قتل عام کی منظوری دے دیتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی مقتدر قوت ،ملکی حالات کے اعتبارسے کبھی عسکری ہوتی ہے اور کہیں نیم عسکری قبائل پر مشتمل ہوتی ہے۔جمہوری طور پر بظاہردکھائی دینے والے حکمران ان کے سامنے تنہائی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، لیکن عوام میں ان کے خلاف سرکشی کے نعرے بلند کرتے ہیں۔نواز شریف ، مریم نواز، محمد زبیر، بلاول، عمران خان، شہباز شریف، حافظ اسعد محمود، سراج الحق، خواجہ آصف، شاہ محمود یا شیخ رشید کے طرزِ عمل پر حیرانی کیوں۔۔یہ سب بھی اسی رنگ بدلتی جمہوریت کے خوشنما چہرے ہیں۔ کسی کو ان کے بار بارمؤقف بدلنے اور اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ روابط رکھنے کے ساتھ ساتھ عوام کے سامنے اسی اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے کے دوغلے پن پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ دنیا کے ہر ملک میںایسے ہی ہوتا ہے۔ یہ تو قومی سطح کے جمہوری رہنما ہیں اور قومی سطح کی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ جمہوریت کا خمیرتو ایسا ہے کہ یہ کونسلر کی سطح تک دھوکے، فریب اور چالبازی سے گندھا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا بلکہ شاید اب بھی ہے کہ جب ضلع کی اسٹیبلشمنٹ کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ہوتا تھا۔ تمام مقبول مقامی، صوبائی اور قومی رہنما ،چاہے عوام کے سامنے اسے گالیاں دیں، بیوروکریسی کو خرابیوں کی جڑ قرار دیں، لیکن تنہائی میںاس کے روبرو بالکل مختلف ہوتے ہیں۔اس لئے کہ الیکشن لڑوانے سے لے کر الیکشن جتوانے اور ہروانے تک اسی ڈپٹی کمشنر کی شعبدہ بازیاں چلتی ہیںبلکہ کامیابی کے بعد تو اس کی مزید ضرورت آن پڑتی ہے۔ بلوچستان کے ایک وزیر اپنی ’’عوامی جاذبیت‘‘ اور مقبولیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ہر الیکشن میں اس بس میں سوار ہوجاتے جو اقتدار کی منزل پر پہنچا دیتی۔یہ 1992ء کا واقعہ ہے کہ واپڈا اور زمینداروں کے درمیان بجلی کی سپلائی اور بلوں کی ادائیگی پر جھگڑا چل رہا تھا۔ واپڈا نے لاتعداد زمینداروں کے ٹیوب ویلوں کے ٹرانسفارمرز اتار کرمیرے دفتر کے سامنے شاہی باغ، مستونگ میں رکھے ہوئے تھے۔ زمیندار ایک بہت بڑے جم غفیر کی صورت سراپا احتجاج تھے۔ میں نے ایکسین واپڈا سے طویل میٹنگ کی اور کہا کہ بلوں اور بجلی کی سپلائی پر بعد میںگفتگو ہو سکتی ہے، لیکن ٹرانسفارمرز اتار کر باغات کو خشک کرنا ظلم ہے، اس لئے انہیں واپس لگا دو ،ورنہ میں انتظامی حکم نامہ جاری کر دوں گا۔ ایکسین نے کہا میںکل تک کرین منگوا کرواپس لگوا دوں گا۔ لوگوں کے احتجاج کی خبر پا کر وزیر صاحب ہجوم میں تشریف لے آئے اوردھواں دھار تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں دیکھ لیتا ہوں اس ڈپٹی کمشنر کو، نہ مانا تو آج وہ نہیں یا میں نہیں‘‘۔ تقریر کے بعد وہ میرے دفترتشریف لائے۔ انتہائی تپاک سے ملے اور پھر کہنے لگے، آپ جیسے مہربان آفیسرکی وجہ سے ہی تو میں نے اگلے الیکشن میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر مرکز میں وزیر بننے کا خواب دیکھا ہے۔ میں ایک درخواست لے کر آیا ہوں کہ اگرآپ ٹرانسفارمرز واپس کر دیں گے تو یہ سب میرے ممنونِ احسان ہو جائیں گے۔ میں نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی واپس کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ چلیں چل کر اعلان کرتے ہیں۔ اس نے کہا ،آپ یہیں بیٹھیں میں خود جا کر انہیں بتا دوں گا۔ وہ واپس گیا اور بلند جگہ کھڑے ہو کر بولنے لگا، ’’میں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا دیکھو آج فیصلہ ہو کر رہے گا، یا تم نہیں یا ہم نہیں، ان بیوروکریٹس نے مذاق بنا رکھا ہے۔ لوگ پیاس سے مر رہے ہیں اورخود ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر عیاشی کرتے ہیں۔ میرا غصہ دیکھ کر ڈی سی سمجھ گیا اور فوراً فیصلہ کیا کہ ٹرانسفارمرز واپس کر دو‘‘۔ تالیوںکی گونج میںتمام زمیندار اپنے اس محسن کے نعرے لگا کر گھروں کو لوٹ گئے۔ اسی وزیر صاحب کا ایک اور قصہ بھی کمال کا ہے۔،چالبازی اور فریب کا خوبصورت نمونہ۔موصوف ایک دفعہ کوئٹہ سے کراچی جا رہے تھے، جہاں سے انہوں نے شیخ خلیفہ بن زید سے ملنے ابو دبئی جانا تھا جو ان کے ضلع میں شکار کھیلنے آیا کرتا تھا۔آر سی ڈی ہائی وے کسی احتجاج کی وجہ سے مستونگ اور قلات کے درمیان بلاک تھی۔ معاملہ واپڈا کا ہی تھا۔وزیر صاحب کو لیٹ ہونے اورفلائٹ کے نکل جانے کا خدشہ پیدا ہوا۔ وہ گاڑی کی چھت پر کھڑے ہوئے اور کہا میں ابھی کراچی جا رہا ہوں اور رستے میں قلات کے ڈپٹی کمشنر احمد بخش لہڑی کے پاس جا کر آپ کے ڈپٹی کمشنر مستونگ کو فون کروں گا اور مسٔلہ فوراً حل ہو جائے گا، آپ لوگ فوراً مستونگ پہنچو۔ لوگوں نے سڑک کھول دی اور میری جانب مستونگ روانہ ہو گئے اور وہ مخالف سمت میں قلات روانہ ہو گیا۔لوگ میرے دفترکے باہر آکر بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ کب وزیر کا فون آتا ہے۔ آخر میں نے خود احمد بخش کو لہڑی کو فون کیا اور وزیر صاحب کے بار میں پوچھا، تووہ کہنے لگے مجھے سڑک والے پٹرول پمپ پر ملے تھے، کہنے لگے ’’ابو دبئی جا رہا ہوں کوئی چیز چاہیے تو بتا ئیں‘‘۔جمہوریت میں چونکہ جھانسہ اور فریب دینے کی عادت پڑجاتی ہے، اس لئے اپنی فلائٹ مس ہو جانے سے بچنے کے لئے بھی کوئی اسقدر پُر فریب منصوبہ سازی کر سکتا ہے۔ فریب، دھوکہ، سبز باغ دکھانااور منافقت سب اس جمہوری نظام کے چہرے ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں کی فاتحہ خوانی کے لئے جانا، گھن آتی ہو مگر عوام سے ہاتھ ملانا، گلے ملنا، اپنی جدوجہد کے جھوٹے افسانے سنانا اور سب سے اہم بات یہ کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں سے جھوٹے وعدے کرنا۔ ہربڑے سے بڑے لیڈر کوبخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرنے کی ہمت رکھتا ہے اور نہ ہی استطاعت۔لیکن وعدے پروعدے کیے جاتا ہے۔ انہی جھوٹے وعدوں پر تو سب کوووٹ ملتے ہیں۔ اقبال کی ایک نظم ہے’’ ابلیس کی عرضداشت‘‘ جس کے آخر میںابلیس اللہ سے درخواست کرتا ہے کہ جمہوریت کے اربابِ سیاست کی موجودگی میں اب زمین پر میری کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست باقی نہیںاب میری ضرورت تہہ افلاک