مدینہ منورہ اور دمشق دو مختلف اور متضاد رویوں کے عکاس اور نمائندے بنے۔دمشق سے ملوکیت کا انسٹیٹیوشن معرض عمل میں آیا۔شورائی اقدار کا تقدس پامال اور اصولی وآئینی انحراف ہوا۔ولی عہد نامزد کرنے اور بزور شمشیر،طاقت اور بیعت کی رسم کا اجرا ہوا۔حضرت علی المرتضی ؓجیسی ہستی پر سرکاری آرڈر کے تحت سب و شتم ہونے لگا۔دربار اور دربار داری کے لوازمات اور طبقات معرض عمل میں آئے۔ سٹیٹ بینک اور بیت المال ذاتی جاگیر قرار پایا۔مال زکوٰۃ، خمس،جہاد اور منبر کو یرغمال بنا دیا گیا۔خلافت پہلے امارت اور پھر ملوکیت کے سانچے میں ڈھل گئی۔وسیع فتوحات دارالسلام کی بجائے ذاتی ملکیت اور خاندانی جاگیر کی شکل اختیار کر گئی۔ایرانی شہنشاہیت اور رومی طرز جہانبانی و جہانداری کو فروغ میسر آیا۔اسلامی اقدار و روایات اور رشتے،ناطے پامال اور قیصر وکسریٰ کے اسلوب و انداز رواج پذیر ہوئے۔جاہلانہ غرور و تکبر سیاسی اقدار کے استحکام کا زینہ قرار پایا۔اقتدار اور حکومت کا اصل ماٹو اپنے مفادات کا تحفظ اور ذاتی اختیار و اقتدار کی بقا طے پایا،جس کیلیے ہر دینی اور اخلاقی قدر کی قربانی جائز ٹھہری۔اس کے بالمقابل امام حسینؑ کے مدینہ میں وہ بوریا نشین بستے تھے، جن کی پاکیزہ نگاہیں صبح و شام حرم رسول کی حاضری سے فیض یاب ہوتے،جہاں کی گلیاں قال اللہ اور قال الرسول کی صدائوں سے آراستہ تھیں۔یہ ارض مقدس تحریک اسلامی کی روایات کی امین و علمبردار جبکہ دمشق سیاسی اقتدار پر تسلط اور اس کو خاندانی ورثہ میں تبدیل کرنے کی پالیسی پر گامزن،اسی ذہنی اور خاندانی رجحان کو تقویت دیتے ہوئے بنو امیہ کے ایک سردار نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:کہ حق اور حقیقت۔اقتدار اور سلطنت کے علاوہ کچھ نہیں،اس گیند کو اپنے میدان سے خارج نہ ہونے دینا،ایک دوسرے کے پاس رہنے دو اور اپنے بیٹوں کے لیے اسے موروثی بنائو۔ 41 ھ میں تخت دمشق کو ایک معاہدے کی رو سے مسلم ریاست کی حکومت اور حکمرانی کا جو حق میسر آیا تھا، اسی معاہدے کی رو سے اس حق کو انکے عہد کی تکمیل کے بعد،امت مسلمہ کے پاس واپس جانا تھا،لیکن ایوان اختیار کی ترجیحات بتدریج تبدیل ہوتی گئیں۔حضرت امام حسنؓ کی شہادت کے بعد جمہوری اقدار کی بساط تیزی سے سمٹنے لگیں اور پھر یزید کی ولی عہدی کا مسئلہ،ریاست کا اہم ترین معاملہ قرار پا گیا،اختیار و اقتدار اور حکومت و سلطنت کو آل امیہ میں محفوظ و موجود رکھنے کے لیے طویل المدت منصوبہ سازی شروع ہو گئی۔ دوسری طرف قرآن و سنت کے اصول اور امت کے مفادات اور حق خودارادیت…جن کے تحفظ اور بقا کی ذمہ داری خانوادہ نبوت اور اہل بیت رسالت پر تھی،اس وقت جسکے سرخیل،امیر اور امام۔۔۔ شہزادہ گلگوں قبا، نور نگاہ سید زہرہ حضرت امام حسینؓ تھے۔وقت کے بدلتے زاویوں پر نگاہ رکھنا، ان کی ذمہ داری تھی،جس کیلیے نئے سیاسی رجحانات اور زمینی حقائق کے پیش نظر مستقبل کے لائحہ عمل کی ترتیب قافلہ حسینی کا فرض تھا۔اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس اس امر سے آگاہ تھی کہ مدینہ کے باشندے آپکو ’’یا ابن رسول اللہ‘‘ کے لقب سے پکارتے اور مخاطب کرتے ہوئے آپ پر اپنی عقیدتیں اور ارادتیں نثار کرتے ہیں۔حکومتی کارندے اور سرکاری اہلکار بھی ان امور پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے۔ امام حسنؓ نے امت کی بہتری کے لیے حکومت سے دستبرداری کا جو فیصلہ کیا ان کی شرائط کی مسلسل پامالی سے حالات خراب سے خراب تر ہو گئے۔سوال یہ تھا کہ تکریم آدمیت اور شرف انسانیت کے جو زاویے اور زینے پیغمبر اسلام عطا فرما گئے ہیں ان کو کس طرح پامال ہونے سے بچایا جائے۔ عدل اجتماعی،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اسلامی روایت کو کس طرح زندہ رکھا اور پھر کیا ظلم اور جبر کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا راستہ اختیار کیا جائے یا تنہائی،گوشہ نشینی اور خاموشی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ان حالات میں امام عالی مقام کے لیے مصطفی کریم کی تربیت اور وراثت کا امین ہونے کے سبب اعلائے کلمہ حق کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا۔ امامؑ نے جریدہ عالم پر ایک منفرد احتجاج ریکارڈ کروا کے، جمہوری اقدار اور انسانی آزادیوں کا علم بلند کیا اور اپنی اس تحریک کے ذریعے کھلے عام گواہی دی کہ قانون الٰہی کو جاری رکھنے اور استبداد و استحصال اور ملوکیت کی بیخ کنی کے لیے جان بھی قربان کرنا پڑتی ہے۔ یہی امر امام عالی مقامؑ کی تحریک کا بنیادی عنصر تھا،جسے 58ھ میں حج کے موقع پر عامۃ المسلمین کے سامنے واشگاف الفاظ میں آپؑ نے بیان کردیا تھا کہ: ٭ حکومت اسلامی اصولوں کے مطابق کام نہیں کر رہی۔٭ اسلامی نظام کے عطا کردہ حقوق بشری غیر محفوظ ہیں۔٭عامۃ الناس پر خوف و خطر مسلط ہے۔٭ سرکاری وسائل اور قومی دولت، ذاتی جاگیر بنا دیئے گئے ہیں۔٭ خلافت علی منہاج النبوۃ کی روایت قائم نہیں ہے۔٭ شوریٰ کا تصور ختم ہو گیا۔٭ منبر و محراب پر سرکاری تسلط قائم کردیا گیا۔٭ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو سوسائٹی سے خارج کردیا گیا۔ امام نے ان خطرات سے امت مسلمہ کو بروقت آگاہ کیا اور بذریعہ خصوصی مراسلہ تخت دمشق کو بھی متنبہ کیا۔ اقبال اسی مقام پر پکارے اور امام کی بارگاہ میں خراج محبت و عقیدت پیش کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ حسینؑ نے اس مقام پر بروقت اقدام سے اسلام کو نئی روح اور زندگی عطا کی۔وہ کہتے ہیں: فقر عریاں گرمی بدر و حنین فقر عریاں بانگ تکبیر حسین یعنی بدروحنین کے معرکوں کا نام فقر عریاں ہے۔ یعنی خالص اور کھرا فقر۔جو امام حسینؑ ہی کی تکبیر کا دوسرا نام ہے۔ تاکجا بے غیرت دیں زیستن اے مسلماں مردن است ایں زیستن یعنی اے مسلمان! دین کی غیرت کے بغیر تو کب تک زندہ رہے گا۔ ایسی زندگی تو سراپا موت ہے۔ اقبال حقیقی آزادی، جمہوری اقدار اور خلافت سے رشتہ منقطع اور ملوکیت کی ترویج کے مضمرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت حریت را زہر اندر کام ریخت تاقیامت قطع استبداد کرد موج او خون چمن ایجاد کرد یعنی جب حکومت و سطوت نے قرآن سے اپنا ناطہ توڑ لیا تو گویا آزادی کے حق میں زہر ٹپکا دیا تو حسینؑ اس صورت حال کو برداشت نہ کر سکے۔ تو پھر ان کی فکر رسا کا ابر گوہر بار کربلا کے ریگزار پر خوب برسا اور آزادی و حریت کی نعمتوں سے سرفراز کر گیا۔آپ نے ظلم و جبر کا راستہ ہمیشہ کیلیے بند کردیا اور ان کے خون کی موجوں سے دنیا آزادی کی بہار سے ہمکنار ہوگئی۔ اقبال کہتے ہیں کہ حسینؑ ’’لاالہ‘‘ کی بنیاد قرار پائے جیساکہ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے بھی اپنی ایک معروف رباعی میں کہا: حقا کہ بنائے لاالٰہ است حسین تو یہ عظیم تر مقام آپؑ کو کیونکر عطا ہوا بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است پس بنائے لاالٰہ گردیدہ است یعنی حسین حق کی سربلندی اور تکریم انسانیت کے علم کو سربلند کرتے ہوئے خاک و خوں میں لوٹ پوٹ ہو گئے یعنی اپنا سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کر دیا۔ اسی سبب وہ لاالٰہ کی بنیاد قرار پائے۔