کراچی ( سٹاف رپورٹر،آن لائن )سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے جمہوریت کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں ہم آدھے پاکستان سے محروم ہوچکے ،جبر کے نظام کی وجہ سے 71 میں ملک کو قائم رکھنے کیلیے ہماری عسکری قوت کام نہ آئی، پاکستان عسکری قوت کے زورپرآزاد نہیں ہواتھا،یہ ملک ایک سوچ اور نظریئے کی بنیاد پر لوگوں کو قائل کرکے حاصل کیاگیا۔ آئی بی اے میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس ملک کو برقرار رکھنے کے کیلیے عوام نے آئین بنایا، قائد اعظم نے کہا تھا پاکستان جمہوری ملک ہوگااورعوام ظلم وستم سے محفوظ ہونگے ،عدلیہ یقینی بناتی ہے کہ ہر شخص و ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں کام کرے ،تاریخ بتاتی ہے جب ادارے اختیار سے تجاوز کرتے ہیں تو ملک نہ صرف کمزور بلکہ ٹوٹ بھی سکتا ہے ، عدلیہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز نہ کرے ،حکومت کو تنقید کی بنا پر سرکاری اشتہارات اپنی مرضی سے دینے کا حق نہیں، جمہوریت کے استحکام کے لیے آزاد عدلیہ کے ساتھ آزاد میڈیا کی بھی ضرورت ہے ،ملک کسی ایک شخص کو مقتدر قوتوں کے گلے لگانے سے مستحکم نہیں ہوتا۔عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لینے والے مجھ سمیت صدر، وزیراعظم، وزرا اور افواج پاکستان کے ہر سپاہی پرآئین اور حلف کی پاسداری لازم ہے ، اگر ہم زندہ قوم ہیں تو ہر اس شخص کے خلاف ڈٹ جانا ہوگا جو آئین کے خلاف کام کرنے کی کوشش کرے ۔ پاکستان کا قیام معجزہ ہی سمجھیں، اس معجزے کو برقرار، محفوظ رکھنے کے لیے ایک طریقہ کار مہیا کردیا جسے ہم آئین کہتے ہیں، جس کا پورا نام آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ، آئین میں جب جمہوریت کمزور ہوتی ہے ، ایک شخص کی آواز عوام کی آواز کو دبا دیتی ہے تو دشمن فائدہ اٹھاتا ہے ،ادارے اور ملک تب مضبوط ہوتے ہیں جب اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، جمہوریت کو قائم رکھنا فریضہ ہے ، اگر ہم جمہوری اصولوں پر گامزن رہیں گے تو ہماری قومی سالمیت برقرار رہے گی۔ آئین کی شق 199 اور شق (3)184 سے عدلیہ بنیادی حقوق پر عملدرآمد یقینی بناتی ہے ، اگر کوئی شخص، ادارہ بنیادی حقوق سے تجاوز کرے توعدلیہ کے پاس اختیار ہے کہ وہ اسے روکے ،پاکستان بننے کے بعد پہلے جنرل ایوب پھر یحییٰ خان آئے ، جمہوری طرز عمل کو نظر انداز کیا گیا اور نتیجتاً ہم آدھے پاکستان سے محروم ہوگئے ۔ موبائل پر ٹیکسوں کے خلاف حکم امتناعی کا جواز نہیں تھا کیونکہ ٹیکس بنیادی حقوق میں شامل نہیں، یہ 100 ارب روپے اب اکٹھے نہیں کیے جا سکتے ۔