جمہوریت سماج کے اجتماعی سیاسی شعور کی پختگی کا نام ہے۔ انتخابات اور منتخب حکومتیں اس کا ایک جزو لازم۔ اجتماعی شعور ارتقاء کی بھٹی میں ہی پختہ ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کہ بٹن دبائیں اور دماغ روشن ہو جائیں۔ جمہوریت انتخابات کا نام ہوتا تو حسنی مبارک‘ صدام حسین اور انور سادات کو تاریخ آمروں میں شمار نہ کرتی۔ کیمبرج ڈکشنری کے مطابق’’جمہوریت عوام میں آزادی اور مساوات کا یقین اور اس یقین پر قائم ہونے والی حکومتوں کا نام ہے‘‘۔ پاکستانی سیاسی اشرافیہ کا المیہ یہ ہے کہ انتخابات خرید کر اپنی بادشاہت قائم کرنے کو جمہوریت تسلیم کروانے کی ضد کرتی ہے۔ آزادی کا مطلب لوٹ مار اور سیاست کا مطلب کاروبار سمجھ لیا گیا ہے۔ سوال کرنے پر جمہوریت کو خطرے کا راگ الاپا جاتا ہے تو احتساب کے لئے قانون کے حرکت میں آنے پر سیاسی انتقام اور خلائی مخلوق کا واویلا شروع کر دیا جاتا ہے۔ سینٹ انتخابات میں شکست کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے انداز و اطوار پر غور کیا جاتا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جاتی کہ تحریک پیش کرنے کے حق میں کھڑے ہونے والے 64خفیہ ووٹنگ کے دوران 50کیوں رہ گئے؟ اس کی وجہ سیاسی پارٹیوں میں آمرانہ رویوں میں تلاش کرنے کے بجائے قومی اداروں کو کر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان دنیا کا کوئی واحد ملک نہیں جہاں ادارے ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے قومی اور بین الاقوامی معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔ کمیوں کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر کسی بھی ملک کے سیاستدان اپنی کرپشن اور نااہلی کو چھپانے کے لئے قومی سلامتی کے اداروں پر کیچڑ نہیں اچھالتے۔ یہ ہمارے سیاسی مغل اعظم بننے کے خواہشمندوں کا ہی شرف ہے۔ جمہوریت کی ماں برطانیہ کو کہا جاتا ہے وہاں 1205ء میں قائم ہونے والا ایوان بالا اکیسویں صدی تک برطانیہ میں جمہوری انداز میں عوامی حقوق کے تحفظ کے لئے ترامیم کر رہا ہے۔ برطانیہ میں قومی اور بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے اور جمہوریت کی رہنمائی کے لئے ایم 5اور ایم 6بھر پور انداز میں مداخلت کرتی ہیں جمہوریت کے نام پر دنیا بھر میں خون بہانے والے امریکہ کو ہی دیکھ لیں وہاں صدر کو انتخابات میں جیت کے لئے روس کی مدد کے الزامات اور تحقیقات کا سامنا رہا ، ٹرمپ نے ’’جوڈیشل کوو‘‘ کا واویلا نہیں کیا۔ صرف ٹرمپ ہی کیوں کسی بھی امریکی صدر نے اپنے اداروں کے خلاف احتجاجی ریلی نہیں نکالی۔ جہاں تک قومی اداروں کی مداخلت کا تعلق ہے تو امریکہ میں عسکری قیادت کے سیاسی معاملات میں مداخلت کا اندازہ ایڈم مار مولنسکی کی تحریر سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے 1966ء میں پینٹا گون چھوڑا تو مجھے یقین تھا کہ 60ء کی ابتدائی دہائی میں رابرٹ مک نامارا (Robert mc Namara)کی اصلاحات کے بعد امریکی ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر سیاسی قیادت کی گرفت مضبوط ہو گئی ہے۔ مگر آج میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ان اصلاحات کے ذریعے حقیقی معنی میں اہداف حاصل ہو سکے ہیں۔ شاید سول بالادستی کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے جے ایف کینیڈی کے دور میں کوشش بھی ہوئی۔ ناقدین ٹرمپ کی انتخابی مہم میں افغانستان سے فوج نکالنے کی کوششوں میں کامیابی کو سول سیاسی فتح سے زیادہ خلیج میں بڑھتی کشیدگی اور امریکی مجبوریوںکو سمجھا جا رہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی امور میں مداخلت کا نظارہ دنیا 2001ء میں آگرہ سمٹ کی ناکامی کی صورت میں کر چکی ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ اے ایس دولت آگرہ مذاکرات کا سہرا بی جے پی کے اہم رہنما ایل کے ایڈوانی کے سر باندھتے ہیں تو ناکامی کا ذمہ دار بھی انہیں کو قرار دیتے ہیں۔ دولت (Dulat)نے اپنی کتاب (The Two Began to Meet) میں یہ انکشاف کیا ہے کہ بھارتی ٹی وی اینکر کرن تھاپر کی مدد سے ایڈوانی نے بھارت میں اس وقت کے پاکستان کے سفیرجہانگیر اشرف قاضی سے 20ملاقاتیں کیں اور مسئلہ کشمیر کے دیرینہ تنازع کے قابل قبول حل پر اتفاق پیدا کیا۔ ان حالات میں دولت کے اس دعویٰ کو کون تسلیم کر سکتا ہے کہ آگرہ کانفرنس ایڈوانی کی وجہ سے ناکام ہوئی۔ پھر ایڈوانی نے اپنی کتاب Mt country my lifeمیں آگرہ سمٹ کو ناکام کرنے کے دولت کے الزامات کی تردید تو کی مگر ایڈوانی نے اپنے اداروں کو اپنے نشانے پر نہ رکھا۔ کسی نادیدہ قوت کو ذمہ دار قرار نہ دیا۔ ہاں البتہ سابق صدر مشرف نے اس خفیہ ہاتھ کو پہچاننے کا دعویٰ ضرور کیا تھا۔ ان کے مطابق جب وہ بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ مشترکہ اعلامیہ کے نکات کی نوک پلک درست کرنے میں مصروف تھے تو اٹل بہاری واجپائی کے نوٹس ایک شخص مسلسل لکھے جا رہا تھا۔ میں نے مذاق میں اس سے پوچھ لیا کہ جتنا آپ لکھ رہے ہو اتنا واجپائی لکھواتو نہیں رہے مگر وہ شخص خاموشی سے نوٹس لیتا رہا اس شخص کا نام ویوک کاتجو تھا موصوف وہی کاتجو ہیں جو بھارتی طیارہ اغوا ہونے کے بعد افغانستان میں خصوصی ایلچی کی حیثیت سے گئے تھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس قسم کے معاملات میں خفیہ اداروں کے اہلکار ہی شامل ہوتے ہیں۔ سابق صدر مشرف کے بقول مذاکرات کی میز پلٹنے کے بعد انہوں نے واجپائی سے یہ ضرور کہا تھا کہ یہ میری ہی نہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم کی بھی توہین ہے۔ مشرف کے جوش دلانے پر بھی واجپائی کے بوڑھے خون میں اتنا ابال نہ آ سکا کہ وہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاتے ۔بھارتی میڈیا جو پاک بھارت دوستی کے شادیانے بجا رہا تھا کاتجو کی کارستانی کا اعتراف کرنے کے بجائے مشرف اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے لگا۔ کسی نے سول بالا دستی کی دہائی نہ دی۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پوری مہذب دنیا کی سیاسی قوتیں قومی مفاد میں عسکری اداروں کے مشوروں کو کھلے دل سے قبول کرتی ہیں تو صرف پاکستان میں ہی جمہوریت خطرے میں کیوں پڑ جاتی ہے۔ جمہوریت کو خطرہ قومی اداروں کی ان پٹ سے ہے یا سیاستدانوں کی مطلق العنان جمہوریت کی خواہش سے؟ جمہوریت سماج کے اجتماعی سیاسی شعور کی پختگی کا نام ہے اجتماعی شعور ارتقا کے عمل کی بھٹی سے گزر کر پختہ ہوتا ہے بٹن دبانے سے دماغ روشن نہیں ہوتے کاش یہ بات ہمارے سیاستدان بھی سمجھ لیں۔