حج کے بعد جمعہ آیا تو خیال تھا کہ رش کچھ کم ہو گا کہ کچھ لوگ مدینہ کے لئے بھی روانہ ہو گئے۔ مگر نہیں صاحب ہمارا گمان بالکل غلط تھا وہاں تو ٹھاٹھیں مارتا ہوا لوگوں کا بحر بے کراں تھا۔ ہم عزیزیہ سے صبح آٹھ بجے نہا دھو کر بسوں میں بیٹھ گئے اور نو بجے کے قریب حرم میں تھے۔ دھوپ چمک رہی تھی اور رنگ برنگی چھتریاں آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں وضو کرنے کے بعد اپنا راستہ بنانے کی کوشش کی کہ کسی طرح سے حرم میں داخل ہوں۔ نہیں صاحب یہ اتنا آسان نہیں تھا۔حاجی باب عبدالعزیز کے سامنے اندر جانے کی کوشش میں تھے اندر جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم بھی کچھ وقت کی دھکم پیل میں سائیڈ دروازے کے قریب جا پہنچے پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا کہ میری باری آئی تو شرطوں نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر دیوار کھڑی کر دی اور ان کی بدن بولی سے کچھ بھی عیاں نہ تھا کہ وہ اب ہمیں جانے دیں گے یا نہیں‘ وہ سب آپس میں باتیں کر رہے تھے کچھ جوانوں کے ساتھ ان کے آفیسرز تھے۔ یہاںمیں نے ایک منظر دیکھا کہ اتنے بڑے مجمع میں انہوں نے دو عرب عورتوں کو بڑے طریقے سے اندر کی طرف کھینچ لیا اور جانے دیا۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ یہ سب کیا ہے اپنا راستہ نہیں بن رہا۔ ایسے ہی میرے ذہن میں صائب کا شعر آ گیا ہے۔ معلوم نہیں انہوں کس موقع پر کہا ہو گا: بہ طواف کعبہ رختم بہ حرم ہم ندادند کہ برون درچہ کر دی کہ درون خانہ آئی ترجمہ ’’میں کعبہ کے طواف کے لئے گیا تو مجھے کہیں سے بھی اندر جانے کا راستہ نہ ملا۔ آواز آئی کہ تو باہر کیا ایسا کام کر کے آیا ہے کہ اندر آنے کا اذن ملے‘‘ اللہ اللہ میں تو نہ چیز اور گنہگار مجھے تو اس لئے روکا گیا ہو گا کہ تیری یہی اوقات ہے۔ تیری حیثیت کیا ہے۔ یہاں کئی میرے جیسے بے بسی کی تصویرہیں۔ حج کی مشقتوں کے دوران ایک تبدیلی تو آئی ہے کہ میں خود کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہوں کہ یہاں صبر‘ شکر اور برداشت ہی سے عقدے وا ہوتے ہیں۔ میری عادت ہے کہ میں درود شریف پڑھنے لگتاہوں اور یہ عقدہ کشائی کا مجرب نسخہ ہے۔شرطوں نے کافی دیر روکے رکھا پریشانی بڑھنے لگی۔ یکایک یہ بڑھتا ہوا مجمع سیل آب ثابت ہوا کہ پانی اپنی جگہ آپ بنا لیتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ سپاہی بے اختیار ہو گئے اور اس مجمع کے ساتھ ہی بہہ گئے۔ آگے آئے تو سامنے سیڑھیاں تھیں۔ ہم خوشی خوشی سیڑھیوں پر چڑھے اور اوپر جا کر پھر ایک اور سیڑھی کے ذریعہ ایک بڑے ہجوم میں پہنچ گئے وہاں انائونس منٹ ہو رہی تھی کہ سعی کر لیں یہ صفہ مروا کی سعی تھی چوتھی منزل پر۔ ہم تو جمعہ پڑھنے آئے تھے۔ اب یہاں سے کدھر نکلیں۔ صرف ایک ہی راستہ تھا ہمیں باہر کی طرف چھت پر دھکیل دیا گیا جہاں سورج سوا نیزے پر تھا۔ ایک بے اماں سی کیفیت در آئی۔ لوگ ٹکڑیوں میں سایہ تلاش کرنے لگے مگر وہاں سایہ نہ ہونے کے برابر تھا۔یااللہ اب کیا بنے گا۔ جس سے پوچھو پتہ چلتا ہے کہ سب راستے بند ہو چکے ہیں۔ پائوں جلنے لگے سر پر چھتری بھی نہیں یونہی ایک طرف کو چلنا شروع کر دیا کہ کہیں تو قدرت کو ہم پر ترس آ جائے گا۔ بھئی یہ تو عجیب ہوا کہ ہم ایک زینے کے پاس پہنچے جو نیچے اتر رہا تھا۔ ایک مرتبہ پھر بن سوچے نیچے اتر گئے اور نیچے مزید ایک زینے پر قدم رکھا ہم پر کھلا کہ ہم دوسری منزل کے مطاف پر ہیں لوگ چلتے چلے جا رہے تھے۔ ہم نے اردگرد بیٹھے ہجوم میں چپکے سے جگہ بنائی اور ٹھنڈی ٹھار جگہ پر آن بیٹھے یہ جگہ سنٹرل ایئرکنڈیشنڈ تھی۔ آپ یقین مانیے کہ خوشی میرے جسم و جاں میں پھیل گئی کہ یہ ایسے ہی تھا جیسے کسی کو لق و دق صحرا میں نخلستان مل جائے۔میں فرصت و انبساط سے سرشار ہو کر اللہ کے حضور نوافل پڑھنے لگا کہ اللہ کی قربت تو یہاں محسوس ہوئی ہے۔ ہم تو ہزاروں لاکھوں میل سے ادھر منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اب تو ہم وہاں تھے جسے مرکز کہیے۔ سامنے خانہ کعبہ پھر اپنے مقدر پر پیار کیوں نہ آئے۔ سچ مچ میں حیرت زدہ تھا کہ ایک وقت میں مجھے دھوپ کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا اور اب دھوپ یکسر ہٹا دی گئی تھی اور سایہ رحمت میں پناہ مل گئی تھی۔ ایک عربی نوجوان تلاوت کر رہا تھا تو میں اس کی طرف متوجہ ہوا لوگ ذکر اذکار میں مصروف تھے قریب ہی وضو کا انتظام بھی تھا۔ باقاعدہ نہیں بلکہ مجبوری سے پینے کے پانی سے ہی وضو کیا جا سکتا تھا۔ پتہ چلا کہ حرم میں جمعہ کو ہمیشہ اسی طرح رش ہوتا ہے اس کا حج سے کوئی واسطہ نہیں۔ واقعتاً جب میں عمرہ کے لئے آیا تھا تو میں اور آصف شفیع سلاٹر ہائوس سے یہاں جمعہ پڑھنے آئے تھے اور ہمیں باہر کسی بازار میں جگہ ملی تھی۔ جمعہ کی نماز کے لئے مقامی اور مضافات کے لوگ بھی حرم میں پہنچتے ہیں۔ دس بجے سے پہلے ہی سب کچھ پیک ہو جاتا ہے تاہم حج نے کچھ زیادہ ہی اسے اوور کرائوڈ کر دیا تھا۔ پھر جمعہ ادا کرنے کے بعد واپسی بھی کچھ آسان نہیں۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ چھتریاں ہی چھتریاں سب ایک دوسرے سے بچتے بچاتے اور راستہ بناتے چل رہے ہوتے ہیں۔ خطبہ طویل ہوتا ہے عربی لہجہ کتنا پیارا لگتا ہے جمعہ کی نماز میں چھوٹی صورتیں پڑھی جاتی ہیںلاکھوں لوگوں کا حرم کے چاروں اطراف سے سجدہ کرنا‘ کیا سہانا منظر ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭