جمہوریت میں اس کے سوا کوئی خرابی نہیں کہ ایک عدد اپوزیشن بھی ہوتی ہے۔ اور اپوزیشن میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں ہوتی کہ وہ حکومت کو مانتی ہی نہیں۔ جو اپوزیشن حکومت کے حق حکمرانی کو تسلیم کر لے وہ مغربی جمہوریت کہلاتی ہے۔ ہم لوگ مشرقی ہیں اس لئے ہم مغربی جمہوریت کو نہیں مانتے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت آنی جانی چیز ہے۔ بجلی کی طرح جب چلی جائے اور اس کی جگہ فوجی حکومت آ جائے تو اسے جمہوری لوڈشیڈنگ کہتے ہیں۔ فوجی حکومت یا مارشل لاء کو یو پی ایس یا جنریٹر کہا جا سکتا ہے۔ پبلک کو تو روشنی چاہیے۔ چاہے بجلی کے محکمے سے ملے یا یو پی ایس یا جنریٹر سے ملے۔ اندھیرا اچھی چیز نہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فوجی حکومت ہی اچھی ہوتی ہے کیوں کہ اس میں اپوزیشن لیڈروں کو گھر میں آرام کرنے کے لئے بٹھا دیا جاتا ہے۔ اس طرح ملک میں سناٹا چھا جاتا ہے اور فوجی حکومت مزے سے حکومت کر سکتی ہے۔ جمہوریت میں شور شرابا بہت ہوتا ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ دوڑو ‘ پکڑو ‘ لینا جانے نہ پائے۔ وغیرہ کا شور۔ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ جسے پکڑا جاتا ہے اسے رہا کرنے کے لئے ہماری عدالتیں موجود ہیں۔ ہمارے ملک میں سیاست دان اور وکلاء بہ کثرت ہیں۔ جمہوریت میں ایک اور مزے کی چیز ہوتی ہے اسے جہلا مچھلی مارکیٹ اور عقلا پارلیمنٹ کہتے ہیں۔ اس باب میں ہم پہلے آپ کی پارلیمنٹ کی بلڈنگ کے بارے میں بتائیں گے کیوں کہ پارلیمنٹ کی ایسی عالیشان بلڈنگ نہ پڑوسی ملک میں ہے اور نہ ہمارے سابق آقا کے ملک میں جہاں سے چل کر جمہوریت ہمارے ہاں آئی ہے۔ یہ بلڈنگ لق و دق انتہائی کشادہ، رعب دار جدید آلات یعنی لائوڈ سپیکر وغیرہ سے مزین ہے۔ پارلیمنٹ کی یہ بلڈنگ تب بنی تھی جب ہمارے ہاں مارشل لاء تھا۔ مارشل لاء میں بہت سے کام جمہوری ہوتے ہیں۔ مثلاً ترامیم وغیرہ کر کے دستور کو بہتر اور قابل عمل بنا دیا جاتا ہے ترامیم سے کام نہ چلتا ہو تو نیا دستور بنا کر نافذ کرنے میں بھی کوئی تکلف محسوس نہیں کیا جاتا۔ ایک چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ملک کے مستقبل کی بہتری جمہوریت میں دیکھی تو اس نے پارلیمنٹ کی نئی بلڈنگ بنا دی۔ اس پر جو خرچہ آیا اس کا قرضہ دیگر قرضوں مع سود کے ہم لوگ اب تک ادا کر رہے ہیں۔ ہم ایماندار قوم ہیں قرضہ لے کر کھاتے تو ہیں لیکن ادائیگی میں بے ایمانی نہیں کرتے۔ آج کل خزانہ خالی ہے تو اس کی وجہ یہی ہماری ایمانداری ہے۔ پارلیمنٹ کے بہت سے فوائد ہیں۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ نئے قوانین کے بل یہاں منظور ہوتے ہیں منظوری کے بعد یہ نافذ بھی ہو جاتے ہیں شروع شروع میں قوانین پر عملدرآمد کو ضروری نہیں سمجھا گیا کیونکہ ملک میں سبھی نیکو کار تھے۔ قانون توڑتے ہی نہ تھے تو قانون کس پر اورکیوں نافذ کیا جاتا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے کچھ کالی بھیڑیں بھی ہیں چنانچہ نیب کا ادارہ بنا دیا گیا ہے یہ بہت اچھا ادارہ ہے۔ پہلے بدعنوانی کھلم کھلا ہوتی تھی (وہی کالی بھیڑیں کرتی تھیں)، نیب کے ادارے کی وجہ سے اب کھلم کھلا نہیں ہوتی چھپ چھپا کر ہوتی ہے لیکن ہوتی ہے وہ تو ہر ملک ہی میں ہوتی ہے، اس کا شکوہ کیا کرنا۔ یہ ادارہ نہایت درد مند اور حقیقت پسندہے جو اربوں کا مال لوٹتے ہیں ان سے کروڑوں نکلوا کر ہی دم لیتا ہے۔ ایسا ادارہ کسی اور ملک میں نہیں۔ دوسرے ملکوں کے لوگ تمنا کرتے ہیں کہ کاش ان کے ہاں بھی ہوتا۔ آج کل یہ ادارہ عوام میں بہت مقبول ہے ۔ کیونکہ اس نے دو سابق حکمرانوں کو پکڑ رکھا ہے۔ ان پر بھی بدعنوانی کا الزام ہے۔ سنا ہے بات چیت چل رہی ہے۔ کچھ رقموں کی لین دین پر جھگڑا ہے ،خیر ہمیں کیا۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ بات جمہوریت کی ہو رہی تھی۔ یہ سب جمہوریت ہی کے گل کھلائے ہوئے ہیں۔ ہماری جمہویت کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں سیاست دان بھانت بھانت کے اقسام کے پائے جاتے ہیں۔ کچھ مسٹر ہیں تو کچھ مولانا۔آج کل حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا شور مچا ہوا ہے۔ جو مسٹر ہیں وہ تحریک چلانے کے حق میں نہیں مگر جو مولانا ہیں وہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے بے تاب ہیں۔ اب آپ سے کیا پردہ ایک ہی مولانا ہیں جنہیں عرف عام میں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ لیکن ہم چونکہ مولوی اور مولانا حضرات کی عزت کرتے ہیں۔ اس لئے عرفیت کو نقل کرنا شرافت سے بعید سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی یہ مولانا صاحب ہر حکومت کا نفس ناطقہ رہے ہیں۔ پچھلی حکومتوں میں یہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ مسئلہ کشمیر کے لئے انہوں نے بہت دوڑ بھاگ کی۔ اسی کے نتیجے میں انتہا پسند بھارتی حکومت کو کشمیریوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہوئی لیکن جونہی مولانا کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی سے سبکدوش ہوئے، بھارتی حکومت نے میدان صاف دیکھ کر کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ مار دیا۔ یہ آج کشمیر میں جو بھی ظلم و ستم ہے وہ کہتے ہیں مولانا ہی کے کشمیر کمیٹی سے ہٹائے جانے کا نتیجہ ہے۔ مولانا نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا کیونکہ وہ بہت منکسر مزاج ہیں۔ اپنی زبان سے اپنی تعریف نہیں کرتے اور یہ جو وہ وزیر اعظم کو ایجنٹ وغیرہ کہتے ہیں۔ وہ ضرورتاً یا مجبوراً کہتے ہیں۔ وزیر اعظم سے ان کی کچھ شکر رنجی ہے۔ اسی لئے انہوں نے قومی اسمبلی کے الیکشن میں جیتنا بھی پسند نہ کیا۔دو حلقوں سے کھڑے ہوئے چاہتے تو جیت بھی جاتے لیکن اسی شکررنجی کی وجہ سے انہوں نے شکست کو فتح پر ترجیح دی۔ ایسے ایثار پیشہ مولانا اب قوم کو کہاں ملیں گے۔ ان میں اس درجہ تواضع اور نکسار پایا جاتا ہے کہ کبھی کسی حکومت کی مخالفت نہیں کی۔ ہر ایک حکومت کو خواجہ وہ فوجی ہو یا جمہوری انہوں نے کھل کر قوم کی خدمت کا موقع دیا۔ بلکہ کسی نہ کسی طرح اس خدمت میں خود کو بھی شریک رکھا۔ افواہ طرازوں نے ان کے اس تعاون و حمایت کو بھی طرح طرح کے معنی پہنائے لیکن ان میں کوئی صداقت نہیں۔ مولانا آج بھی قوم کی خدمت کو تیار ہیں بشرطیکہ حکومت ان سے خدمت لینے کو آمادہ تو ہو۔ وزیر اعظم سے مولانا کا جو بھی تنازعہ ہے اس میں ہم بہ صمیم قلب مولانا کے ساتھ ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت پہلے ایک اور مولانا ہوتے تھے جنہیں ’’مائو ۔لانا‘‘ بھاشانی کہا جاتا تھا انہیں مائو لانا اس لئے کہتے تھے کہ وہ چین کے مائوزے تنگ کے عاشق تھے اور ان ہی کی طرح ملک میں مائو کا سبز انقلاب لانا چاہتے تھے وہ بھی ہمارے مذکورہ مولانا کی طرح سادگی پسند تھے۔ لنگی اور کرتے میں ملبوس ‘ سر پہ گول ٹوپی مگر تقریر ایسی کرتے تھے جیسے آتش فشاں کے دہانے کے منہ کھل گیا ہو۔ انہوں نے ہی ہمارے ملک میں جلائو گھیرائو اور آگ لگائو کی سیاست کو رواج دیا اب جب سے ہمارے مولانا نے مارچ کرنے کی دھمکی دی ہے ہمیں مائو لانا بھاشانی بہت یاد آ رہے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے مولانا کے انداز سیاست میں بھی مائو لانا بھاشانی کے سیاسی طور طریقوں کی جھلکیاں سی نظر آ رہی ہیں۔ اس کے انجام سے ملک کے شرفا ہول کھا رہے ہیں۔ ہمیں کوئی اندیشہ نہیں،خدا نے چاہا تو وزیر اعظم کو توفیق ملے گی اور وہ کسی نہ کسی طرح(کچھ دے دلا کر نہیں کہ مولانا بہت صاحب کردار ہیں) مولانا کو راضی کر لیں گے۔ لیکن سیانے کہتے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم کو سیاست نہیں آتی۔ وہ ناراض کرنا تو جانتے ہیں کسی کو راضی کرنا انہیں نہیں آتا۔ یہ بھی محض بہتان ہے۔ اگر اس الزام میں ذرا بھی سچائی ہوتی تو وزیر اعظم ہمیں اتنے یوٹرن لیتے نظر نہ آتے۔ مولانا خطرہ بنے تو انہیں راضی کرنے کے لئے اگر انہیں یوٹرن لینا پڑے تو اس میں وہ قباحت ذرا نہ محسوس کریں گے۔یوٹرن لینے میں وقت ہی کیا ہے۔ واپس مڑنا ہی تو پڑتا ہے اور یہ کام ہمارے مولانا اور وزیر اعظم دونوں کو خوب آتا ہے۔ نہ آتا تو اقتدار کی منزل نہ ملتی۔ دور ہی رہتی۔ یہ بھی جمہوریت کا کرشمہ ہے۔!