اگرتمام کاروبار ِزندگی، جمہوری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اورفیصلہ سازی میں سب کی شمولیت اور اکثریت کی رائے کے نفاذ پر چلایاجانے لگے ،تو تمام شعبہ ہائے زندگی چند دنوں میں ٹھپ ہو کر رہ جائیں۔ ہسپتال کے انتظام، مریضوں کی دیکھ بھال اورعلاج تک کے فیصلوں میں اگر دروازے کے چوکیدار، ڈسپنسر، نرس، ڈاکٹرزاور ماہرپروفیسرحضرات کو یکساں ووٹ اور یکساں رائے دہندگی کے ساتھ شریک کر لیا جائے تو عین ممکن ہے کہ اکثر مریض ہسپتالوں کی راہداریوں میں سسکتے ہوئے دم توڑدیں۔ایک عمومی جمہوری تصور میں، چوکیدار سے لے کر ماہر پروفیسر تک سب کے سب ہسپتال کے نفع ونقصان اور مستقبل میںبرابر کے حصہ دارہوتے ہیں جن کو جمہوری زبان میں سٹیک ہولڈرز (Stake Holders) کہا جاتا ہے۔ کیسے کسی ایک سٹیک ہولڈر کی رائے کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن دنیا کے ہر شعبے میں جو جانتا ہے وہی رائے دے سکتا ہے اور جو جتنا جانتا ہے اس کی رائے کی اتنی ہی اہمیت ہو تی ہے۔ امراضِ قلب کے لیے اس کے اعلیٰ ترین ماہرین کی رائے کو ہی اہمیت دی جائے گی اور اس شعبے میں پچاس سال کا تجربہ رکھنے والے وارڈ بوائے، ڈسپنسر بلکہ بعض دفعہ جونئیر ڈاکٹرز کی رائے کو بھی فیصلہ سازی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔اسی مثال کو آپ دنیا کے ہر شعبۂ زندگی پر لاگو کر کے پرکھنا شروع کر دیں۔ کسی ٹیکسٹائل مل میں کپڑوں کے ڈیزائین بنانے ہوں تو کسی نابلد چیف ایگزیکٹو کی رائے کو بھی شامل نہ کیا جائے گا، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس معاملے میں بالکل جاہل اور ناخواندہ ہو۔اگرآپ کاروبارِ زندگی کے معاملات میں بڑے بڑے فیصلوں کی ناکامی کی وجوہات جانیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہر ناکام کاروباری فیصلہ، تعمیراتی فیصلہ، علاج کا فیصلہ، شہر کی پلاننگ کا فیصلہ، نصابِ تعلیم کا فیصلہ، غرض بچوں کی کیرئیر پلاننگ کافیصلہ اس لیے ناکام ہوا کہ یہ ان لوگوں نے کیا تھاجو اس معاملے میںلاعلم تھے، کورے تھے بلکہ جاہل تھے۔ لیکن آج کی دنیا میں رائج سیاسی جمہوری نظام میں یہ اصول طے شدہ ہے کہ ہر شخص حکومت سازی کے فیصلے میں برابر کا حصہ دار، یعنی سٹیک ہولڈر ہے۔ جمہوری نظام میںاسٹیک ہولڈر بڑا وسیع لفظ ہے مثلاََوہ کسی کاروبار سے براہِ راست وابستہ بھی ہو سکتا ہے اور بالواسطہ طور پربھی اس کا مفاد اس سے جڑا ہوا ہوسکتا ہے۔ مثلاََ ایک سریا بنانے والی فیکٹری میں ایک مالک سے لے کر بھٹی کی آگ کے سامنے کھڑے ہونے والے مزدور تک اس سے براہِ راست وابستہ ہوتے ہیں جبکہ، سریا استعمال کرنیوالے ٹھیکیدار، مالک مکان اور مستری بالواسطہ حصے داریا سٹیک ہولڈر ہیں۔ جمہوری اصولوں کے تحت ان سب کی رائے کو برابرکی اہمیت حاصل ہے۔ مگردنیا کے ہر دفتر، ادارے، گھر، سکول، ہسپتال یہاں تک کہ خیراتی اداروں تک کا نظام اس بنیادی جمہوری اصول کے بالکل برعکس اور الٹ چلایا جا رہا ہے۔ اگر ایک دن کے لیے بھی پاپولر ووٹ، یا سٹیک ہولڈز کو فیصلہ سازی میں شمولیت دی جائے اور اکثریت کی بنیادپر اداروں کا نظام چلایا جا نا شروع کر دیا جائے تو پوری دنیا کا نظامِ کار چند سیکنڈوں میں درہم برہم ہو کر رہ جائے۔ جہاز رک جائیں، ٹرینوں کے شیڈول تباہ ہو جائیں، ہسپتالوں میں آپریشن معطل ہو جائیں۔ قاتلوں کی پھانسی، چوروں کی سزا، بددیانتوں کو جرم پر پکڑنا، یہ سارا نظامِ انصاف برباد ہو کر رہ جائے۔ اسی لیے دنیا کے ہر شعبے میں صرف اس شخص کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے جو جانتا ہو، علم رکھتا ہو اور مہارت رکھتا ہو اور جو جتنا زیادہ علم، مہارت اور تجربہ رکھتا ہو گا اسی کی رائے کا اتنا ہی زیادہ وزن(Weightage) ہوگا۔ یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جواللہ تبارک و تعالیٰ نے اصولِ جہانداری و جہانبانی کے لیے انسانوں کو بتایاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ’’(اے نبیؐ) ان سے پوچھو، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ (الزمر: ۹)۔ اس کے برعکس یہ صرف اور صرف جمہوریت ہی ہے جس کے تحت مقبولِ عام حصہ داری (Popular Participation) کے تحت لوگوں کو محض الیکشن والے دن اکھٹا کیا جاتا ہے، رائے لی جاتی ہے، اور پھر باقی پانچ سال تک حکومت کے تمام ادارے عقل والوں کی رائے سے چلائے جاتے ہیں، کوئی نظامِ حکومت میںعام ووٹر کو پوچھتا تک نہیں۔ دنیا میں مروجہ جمہوری نظام میں در اصل کسی بھی ملک پر حکمرانی کے لئیے اوسط درجہ بلکہ بعض دفعہ تو ان سے بھی کم درجہ کی قابلیت اور ذہانت کے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ دنیا کے ہر ملک میں ’’پسِ پردہ فیصلہ ساز قوتوں‘‘کو ایک اوسط درجے کی صلاحیت والا بظاہر ’’تیز طرّار‘‘ لیکن معمولی ذہانت والا شخص بطورحکمران چاہئے ہوتا ہے۔ کوئی بھی ذہین اور اور صاحب الرائے شخص ان کیلئے مشکل بنا سکتا ہے۔ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں بظاہر حکمران نظر آنے والے صدور، وزرائے اعظم، پارلیمنٹ و کانگریس کے ارکان آزارانہ فیصلے نہیں کرتے بلکہ ہر ملک کی ’’مقتدرقوتیں‘‘ اور ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی ہدایات (Dictation) پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ ہر ملک کی اپنی طرز کی ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ ہوتی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک کی اسٹیبلشمنٹ اربوں ڈالر سیاسی پارٹیوں کو فنڈنگ والے گروہ (Caucuses) مشتمل ہوتی ہے۔ یہ گروہ الیکشن مہموں میں سرمائے کی انوسٹمنٹ کرتے ہیں اور پھر اگلے پانچ سالوں کے لئیے وہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی قوانین بنانے اور پالیسیاںبنوانے پرصرف اثر اندازہی نہیں ہوتے بلکہ ایسا کرنے کے لیے ہدایات (Dictation)دیتے ہیں۔ اس طرح ترقی پذیر ممالک میں کہیں فوج اور کہیںبیوروکریسی یہ فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ کسی ملک میںقبیلے اور برابری کی ڈکٹیشن چلتی ہے۔ بعض جگہ مذہبی گروہ اسقدر طاقتور ہو جاتے ہیں جیسے بھارت کی طرح پوری جمہوریت کو کٹرہندوئوں نے یرغمال بنا لیا ہے۔ ان تمام ’’پسِ پردہ قوتوں‘‘ کو اقتدار کی کرسی پرکسی ذہین، معاملہ فہم اور قائدانہ صلاحیت والے شخص کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسی معمولی قابلیت والے شخص کے انتخاب کے پاپولر ووٹ سے بہتر کوئی اورنظام ہوہی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس نظام میں ایک قاتل، چور، ڈاکو، جنسی استحصال کے مجرم، ذخیرہ اندوز، بددیانت، نشہ میں مستقل دھت رہنے والے یہاں تک کہ ذہنی امراض کے ہسپتال میں زیرِ علاج فاترالعقل شخص کا ووٹ اور ایک پروفیسر، سائنسدان، عالم، ایماندار، شریف اور ذہین ترین شخص کا ووٹ برابرہوتا ہے۔ جاہل اور عالم، جاننے والااور نہ جاننے والا دونوں جمہوریت کے ترازو میں ایک ہی وزن رکھتے ہیں۔ جاہلوںاور نہ جاننے والوںکی اکثریت کی وجہ سے امریکی صدور سے لے کر برطانوی وزرائے اعظم اور یورپی رہنمائوں تک آپ کوہرجگہ اوسط درجے کے رہنماہی حکومت میں ملیں گے۔ان چند ایک ذہین افراد اگر ہوں بھی تو ان کا موازنہ اگردنیا کے کسی بڑے فلسفی، سائنسدان یہاں تک کہ سیاست کے پروفیسر سے کیا جائے تو، یہ حکمران ان کے مقابلے میں جاہل تصور ہوںگے۔ ان اوسط درجے کے منتخب حکمرانوںکے ان ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ ، جب چاہے کان پکڑ، انہیںویت نام، عراق اور افغانستان میں جنگ چھیڑنے کافیصلہ کروا دے، یہ چوں چراتک نہیں کریں گے۔ جدید تاریخ میںاس جمہوری نظام میں بھی جو قدآور شخصیات بھی پیدا ہوئیں وہ ایسی تھیںجنہوں نے جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے انکار کیا۔ تب جاکر وہ تاریخ میں اپنا نشان چھوڑگئیں۔ قائدِاعظم محمد علی جناح جب تک ہندوستان میں بسنے والے تمام افراد کی رائے کو برابر (Popular Vote) تصور کرتے رہے، ناکام ہی رہے اور مایوس ہو کر انگلستان چلے گئے۔ لیکن جس دن انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ایک ’’ہندو‘‘ اور ’’مسلمان‘‘ کا ووٹ برابر نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں انسان توہیں لیکن دونوں کا علم اور معاشرتی تجربہ علیحدہ علیحدہ ہے۔ اس فیصلے کے بعد انسانی تاریخ میں قائدِاعظم کا چہرہ ایک روشن ستارے کی طرح تاریخ کے آسمان پر طلوع ہو گیا۔ اگر جمہوریت کی برابری کا اصول کارفرما رہتا تو نہ آج پاکستان دنیا کے نقشے پر ہوتا اور نہ ہی قائدِاعظم کی شخصیت کو کوئی جانتا۔ آزادجمہوری ہندوستان میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے ساٹھ کروڑ مسلمان ایک ارب ہندوئوں کے سامنے ویسے ہی بے بس ہوتے جیسے آج بھارت کے بیس کروڑ مسلمان اس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں ذلیل ورسوا ہیں۔