پہلا سیاسی احتجاج جو دیکھا اور میں اس کا حصہ بھی تھا لیکن شعوری طور پر اس لئے نہیں گردانتا کہ میری عمر اس وقت ایسی تھی جب سیاسی معاملات کی سمجھ بوجھ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور خاص طور پر جمہوریت اور آمریت کے فرق کو تو با لکل نہیں سمجھ سکتا تھا۔یہ جنرل ایو ب خان کے چل چلائو کا دور تھا انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے 1969 میں ملک بھر میں ٹرین مارچ کا آغاز کیا۔ میں جدید پرائمری سکول گوجرہ میں پانچویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ سکول میں پتہ چلا کہ آج جنرل ایوب کی ٹرین گوجرہ آ رہی ہے اور اس وقت انکے سیاسی حامی ایم حمزہ انکا استقبال اپنے ساتھیوں سمیت کرینگے۔ ہم بھی شوق سے سٹیشن پر پہنچے ۔ جونہی ٹرین رکی اور جنرل ایوب نے اپنی بوگی کے دروازے پر آ کر ہاتھ ہلایا، کچھا کچھ بھرے ہوئے پلیٹ فارم پر کوئی اور نعرہ بلند ہونے سے پہلے کسی دل جلے نے جنرل ایوب کے خلاف معروف زمانہ نعرہ لگا دیا جو ان دنوں بہت عام ہوا، اور کہا جاتا ہے یہ نعرہ اپنے پوتے کی زبانی سن کر ایوب خان کی غیرت نے مزید حکومت میں رہنا گوارا نہیں کیا۔خیر اس نعرے کے ساتھ کسی منچلے نے اس بوگی کی طرف جوتا اچھا ل دیا۔ جنرل ایوب خان فوراً پلٹ گئے اور انکے سیلون کی بوگی کا دروازہ بند ہو گیا اور چند منٹوں میںٹرین گوجرہ سٹیشن چھوڑ گئی۔اس کے بعد ملک میں جمہوریت کا بہت شور و غوغا ہوا اور 1970 ء کے انتخابات کے بعد ، جنہیں پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات کہا جاتا ہے، جمہوریت ملک میں آنے کو تھی کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں کے اختلاف نے اسے مؤخر کر دیا اور پاکستان دو لخت ہو گیا۔اس کا سارا دوش صرف اور صرف فوج کے حصے میں آیا جس نے یہ انتخابات کرائے تھے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد جنرل ضیاء کے مارشل لاء میں بطور طالبعلم اور پھر کچھ عرصہ وکیل کے طور پر بہت فعال سیاست کی اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کی۔ جسکے مختلف حوالوں سے نتائج بھی بھگتنا پڑے۔لیکن ملک میں 1988 ء میں جنرل ضیاء کی رحلت کے بعد عام انتخابات ہوئے اور اسکے نتیجے میں محترمہ بینظیر بھٹو پہلی مسلمان خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پانچویں جماعت سے شروع ہونے والی سیاسی جدو جہد کا ایک جمہوری نتیجہ نکلنے کے بعد میں خاصا مطمئن تھا اور یہی وہ مرحلہ تھا جب میں نے وکالت کے پیشے کو خیر باد کہہ کر اسلام آباد کا رخ کیا اور صحافت کے شعبے سے منسلک ہوا اور اسکے بعدآج تک صحافت کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اسکا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے اپنے طویل سیاسی سفر پر نظر ثانی کا موقعہ ملا۔ملک کے اندر سیاسی عمل اور سیاسی قائدین کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع میسر رہا۔انکی سیاسی سوچ اور جمہوریت کے لئے اپروچ بھی سمجھنے کی کوشش کی۔زیادہ تر کو اپنے سیاسی اور ذاتی فائدوں کے لئے کمپرو مائز کرتے دیکھا۔ انکو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ انکے اس عمل سے ملک کو عوام کو کیا نقصان ہو رہا۔ اسی طرح سے حکمرانوں کو بہت معمولی فوائد کے لئے بہت بڑے بڑے کمپرومائز کرتے دیکھا ۔ حتیٰ کہ میرے جد وجہد کے وہ ساتھی بھی جنہوں نے ہمیں جمہوریت کے حوالے سے آئیڈیلزم کا سبق پڑھایا لیکن خود بھول گئے۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ جس جمہوری نظام کا خواب عوام کو دکھایا گیا وہ آج تک خواب ہی ہے۔یہاں پر ہر کسی کی اپنی جمہوریت ہے اور یہ اس وقت تک ہے جب تک وہ با اختیار ہیں۔ جیسے ہی انکے ہاتھ سے اقتدار جاتا ہے جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اپنی تمام تر ناکامیوں کی ذمہ داری خفیہ ہاتھوں، اسٹیبلشمنٹ اور فوج پر ڈالی جاتی ہے۔جمہوریت اور فوج کو ضد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جمہویت کے دعویدار حکمران جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کی بجائے فوج کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب عوامی قوت کو مستحکم نہ کیا جائے تو پاور پالیٹکس پیدا ہوتی ہیں اور انکی چاندی ہو جاتی ہے۔۔ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے ہاں نظام کے لاڈلے بچے پیدا کرنے پر زور رہا ہے، انکی پشت پناہی صرف اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں ملک کے دوسرے آئینی ادارے بھی کرتے ہیں۔حالیہ تاریخ بھی اسکی گواہ ہے۔ اگرجمہوری نظام کو لاڈلا بچہ بنایا جاتا اور قانون کی حکمرانی قائم کی جاتی تو آئے روز کبھی کسی طبقے سے کبھی کسی ادارے سے چیخیں نہ بلند ہو رہی ہوتیں۔ بد قسمتی سے ہمارے سارے جمہوریت پسند دوست ساری خرابی کی ذمہ داری فوج پر ڈال کر بچ نکلنے کی روش اپنا چکے ہیں۔لیکن عوام شاید میری طرح ڈکٹیٹرشپ کے خلاف لڑنے کو تو تیار ہیں لیکن فوج کے خلاف انکے بیانئے میں کچھ لوگوں کی خاطر مدد کرنے کو تیار نہیں، جو جمہوریت کی آڑ لے کر اس ملک کے بہت اہم، منظم اور سیکیورٹی کے ذمہ دار ادارے کو ملعون کرتے ہیں۔گزشتہ منگل کے دن سے سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے ہونے والی سماعت کو بھی جمہوریت اور فوج کی لڑائی بنانے کی کوشش کی گئی۔ دو روز میں جو کچھ کیا گیا اور کہا گیا اسکے بعدمعاملات بہت خرابی کی طرف جا سکتے تھے۔ہمارے ہاں ایسی ہی صورتحال کئی دفعہ پیدا ہوئی اور بہت سے لوگوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی منظر نامے تبدیل ہوتے رہے۔ایسے لوگ جو اس موقع پر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں انکے لئے یہ اہم ہوتا ہے کہ پڑوسی کی دیوار گر جائے بھلے اپنا بچہ نیچے آ جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وزیر اعظم نے آرمی چیف کی ملازمت میںتو سیع کے حوالے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔یہ بھی وضاحت ہو گئی کہ تقرری اور توسیع کا اختیار ماضی کی مثالوں کے پیش نظر حکومت کرنے کو اختیار رکھتی ہے۔سپریم کورٹ نے بجا طور پر قانون سازی کا حکم دیا ہے کیونکہ اس سے پہلے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے جاری روایت کو ہی مد نظر رکھا جاتا تھا۔قانون سازی ہونے کے بعد یہ معاملہ بھی ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے گا۔لیکن میرے جمہوریت پسند کوئی اور بہانہ دھونڈنے میں لگ جائیں گے تا کہ وہ اداروں کے خلاف اپنا غبار نکال سکیں۔