گندم کی سرکاری قیمت اڑھائی سو روپے کے اضافہ سے سولہ سو پچاس روپے فی من ہوگئی ہے۔ یہ معاملہ کچھ عرصے لٹکا ہوا تھا لیکن بالآخر حکومت نے اپنی ہچکچاہٹ پر قابو پا ہی لیا ہے۔ اس سے پہلے ایک ہزار روپے فی بوری کھاد پر بھی سبسڈی دی جاچکی ہے۔ کسان کے مصائب کم ہوئے ہیں ، اچھی بات ہے لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ عوام کی قوت خرید اس بظاہر معمولی بوجھ کی متحمل ہے بھی یا نہیں۔ اچھا ہوتا کہ گندم کی رعائتی قیمت بڑھانے کی بجائے ڈیزل پر ٹیکس کم ہو جاتا ، کسانوں کو موسمیاتی تبدیلی سے نبرد آزما ہونے والے بیج مہیا کرنے کا کوئی راستہ نکالا جاتا اور کھیت سے منڈیوں کے درمیان فصل کے نرخوں کے فرق کو کم کرنے کی تدبیر کی جاتی۔ کوئی ایک مسئلہ ہو تو ملک اور عوام ہمت، حوصلے اور قربانی جیسے جذبات کا سہارا لیکر اس سے نکل جائیں۔ یہاں تو گڑدھال ہے جس سے نکلنے کی جتنی کوشش کی جارہی ہے اس میں ہم پھنستے ہیں چلے جارہے ہیں۔ جمہوریت اختیارات کے ارتکاز کو توڑنے کا راستہ تھا لیکن پچھلے دس برسوں میں اتنا ہی ہوسکا ہے کہ اشرافیہ نے اپنے راستوں سے ہی کانٹے چن پائی ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے لوگوں نے اپنی نسلی مفادات کی آبیاری کی اور چار قومیتوں کا پاکستان بنایا ، پارلیمان کی بالادستی اور صوبائی خود مختاری سے اشرافیہ نے اپنے اقتدار کی طوالت کی تدبیر کی۔ مذہبی پارٹیوں کے ساتھ انکی شراکت کی وجہ سے اقتدار اعلیٰ آسمان کی بلندیوں سے ارض پاک کے سینے پر نہ اتارا جا سکا، خواتین اور بچوں کے حقوق پر قدغن کو یقینی بنایا گیا۔ مرکز سے لیے گئے اختیارات اور وسائل کا رخ شہروں اور قصبوں کی طرف نہ ہوا، مقامی حکومتوں کے حوالے سے ڈھنگ کی قانون سازی ہوئی اور نہ ہی صوبائی مالیتی کمیشن بنے۔اب جو بھی ہورہا ہے وہ گڑدھالی سیاست ہورہی ہے جو بڑی دریافت کے دعووں کے ساتھ پیاز کا چھلکا اتارتی ہے ، حکومت اور اپوزیشن مل جل کر وقت پورا کرتے ہیں اور آخر میں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ نہ عوام پر سے ٹیکسوں کا بوجھ اترتا ہے، نہ ہی انہیں تعلیم، صحت، صاف پانی اور انصاف دہلیز پر مل پاتے ہیں۔ ایک پارٹی کے مقابلے میں دوسری اور پھر ان کے مقابلے میں ایک تیسری پارٹی میدان میں آجاتی ہے۔ بالادست پارلیمان میں اسی حد ہی آئین سازی ہوتی ہے جہاں تک صدیوں پرانا یہ نظام کچھوے کی طرح رینگتا رہے۔ اشرافیہ مذہب، لسانیت کے ہتھیار تو استعمال کر رہی تھی ، پچھلے دس سالوں میں بھوک اور غربت کے عفریت بھی میدان میں اتار چکی ہے۔ اشیائے خورد نوش میں ہوشربا اضافے سے عوام کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی بن چکا ہے۔ کیا سیاستدانوں میں بصیرت کی اتنی کمی ہے کہ وہ اس مسئلے پر قابو نہیں پاسکتے؟ کساد بزاری ہے اور عالمی اداروں کی شرائط بھی اپنی جگہ پر، لیکن یہ بھی سامنے والی ہی بات ہے کہ غربت ، بیماری اور تنگدستی کے شکار لوگوں پر ہی ٹیکس کا بوجھ ہے۔ اگر سر کاری محصولات کا انحصار ہی اشیائے خوردونوش اور پٹرولیم مصنوعات پر ہو تو حکومت کا مہنگائی پر واویلا بے سود ہے۔ پارلیمان سب کچھ کرسکتی ہے بشرطیکہ اس کا تعلق عوا م سے ہو تو۔ آٹا، چینی اور گھی مہنگا ہوجائے، ان لوگوں کی بلا سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ مہنگائی کے خاتمے کا مطلب لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ اور اشیائے ضروریہ کو ان کی دسترس میں لانا ہے۔جسکا ایک راستہ ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات ہیں تو دوسری طرف انتظامی اقدامات کے ذریعے طرز حکمرانی کو بامقصد بنانا ہے تاکہ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی پر قابو پایا جاسکے۔ روپے کی قدروقیمت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے کافی فرق پڑسکتا ہے۔ آزاد معیشت کو اپنے طور پر چلنے دیا جائے تو مافیا کی حکمرانی ہی ملے گی۔ جمہوریت کے ٹھیکیدار چاہے جو مطلب لیتے پھریں، جمہوریت آزاد معیشت پر ایک قدغن ہی ہے۔ جہاں تاجر اور سرمایہ دار منافع کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ جمہوری ریاست کا مطمع نظر لوگوں کی عزت نفس اور قوت خرید میں اضافہ ہے۔ اب جمہوریت ہونے کا فائدہ جمہور ہی کو نہ ہو تو سیاسی پارٹیوں کا احتساب سب سے پہلے ہونا چاہیے کہیں ان پر مافیا کی گرفت تو نہیں۔ ہمارے ہاں لیکن اس بارے میں سوال اٹھانا ہی گناہ ہے۔ مہنگائی اشرافیہ کی گڑدھالی سیاست کے پیچھے چھپ گئی ہے۔ ووٹ کی عزت کا نعرہ لگایا جارہا ہے لیکن ووٹر کی عزت نفس اور خود داری کی پرواہ ہرگز نہیں ہے۔ اب تو گڑدھالی سیاست کچھ اور کس ہی قسم کے گل کھلانا شروع ہوگئی ہے۔ ایسے بیانات اور بیانیہ سامنے آرہا ہے کہ ہماری ہمسائیگی میں بھی کان کھڑے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ حکومت ہٹاو مہم کے دوران ایسی پھلجھڑیاں چھوڑی گئیں کہ ایک ہمسایہ ملک میں سوشل میڈیا پر بغاوت کی خبریں چلنا شروع ہوگئیں۔ بالفرض پارلیمان ٹوٹ بھی جائے اور نئے انتخابات بھی ہوجائیں تو کیا فرق پڑے گا؟ کیا اس ملک کے زمینی حقائق تبدیل ہوجائیں گے؟ جب تک سیاسی پارٹیوں میں نظم و ضبط، فیصلہ سازی میں شفافیت اور کارکردگی کو احتساب کے تابع نہیں بنا یا جاتا الیکشن گھاٹے کا سودا ہی رہے گا۔ ملک میں جمہوریت کا راستہ احتساب سے گزرتا ہے، سیاسی پارٹیوں کی قیادت کیسے منتخب ہوتی ہے، سیاسی ورکر کیسے اور کہاں سے بھرتی کیے جاتے ہیں، انکی تربیت کاکیا بندوبست ہے ، مالی وسائل کہاں سے آتے ہیں، مقامی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ کیسا ہے، ایجنڈا کیسے بنتا ہے اور آیا اس ایجنڈے کی حکمت عملی اور نفاذ کے لیے پارٹی کے پاس مطلوبہ انسانی ، مالیاتی اور تنظیمی ذرائع بھی میسر ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جنکا سیاسی قیادت کے پاس تسلی بخش جواب ہونا لازمی ہے اس سے پہلے کہ وہ پچھلے انتخابات پر انگلیاں اٹھائیں ،اسمبلیاں توڑنے کی بات کریں اور نئے انتخابات کے لیے دھما چوکڑی مچائیں۔ سیاسی پارٹیوں نے اپنے معاملات ازخود سیدھا کرنے ہوتے تو کب کی کرچکی ہوتیں۔ بلکہ وقت کے ساتھ پارٹیوں میں آمریت بڑھی ہے۔ اس حوالے سے عدلیہ کو کچھ کرنا چاہیے۔ کیونکہ پارٹیوں میں جمہوری فیصلہ سازی اور شفافیت کا نہ ہونا بالآخر بنیادی انسانی حقوق کا ہی معاملہ بنتا ہے ، جیسا کہ اس وقت بنا ہوا ہے۔