جنگ آزادی 1857ء میں مسلمانوں نے عظیم کارنامے سر انجام دئیے ۔ مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کو بدنام کرنے کے لیے انگریزوں نے اسے غدر کا نام دیا ، حالانکہ یہ جنگ آزادی تھی ،دوسرے مسلم علاقوں کے ساتھ ساتھ جنگ آزادی کے لیے وسیب کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔یہ بھی درست ہے کہ وسیب کے بعض سرداروں ، تمنداروں اور گدی نشینوں نے انگریز کاساتھ دے کر جاگیریں اور عہدے حاصل کئے ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملتان رجمنٹ نے انگریز سے بغاوت کی ۔ جب انگریزوں نے1849ء میں صوبہ ملتان پر چڑھائی کی تو اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، مرنے والے انگریزوں کی قبریں آج بھی قلعہ کہنہ قاسم باغ پر موجود ہیں ، یہ الگ المیہ ہے کہ ماں دھرتی کا دفاع کرنے والے مسلم سپوتوں کی قبروں کے نشان نہیں ۔وسیب کے سپوت احمد خان کھرل کی مزاحمت بھی تاریخ کا حصہ ہے ، حریت پسندوں کی قربانی سے آج ہم آزادی کا سانس لے رہے ہیں یہ ضروری ہے کہ آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کیاجائے ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنگ آزادی سے پہلے مسلم رجمنٹوں نے بدیسی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی تاہم 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برٹش انڈین آرمی نے ان تمام رجمنٹوں کو ختم کر دیا تاہم برٹش آرمی میں بھی اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ان میں اکثریت پنجاب اور صوبہ سرحد کے سپاہ کی تھی ۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم اکثریت پاکستان کے حصے میں آئی ۔ انڈیا نے حصے میں فوجی تو دے دیئے مگر اسلحہ نہ دیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ راولپنڈی جی ایچ کیو میں کوئی ریکارڈ نہ تھا، ایک بھی لیجر نہ تھا ۔ ایک بھی رائفل نہ تھی ، ایک بھی ڈکشنری نہ تھی ، لکھنے کیلئے ایک بھی کاغذ نہ تھا ، قلم دوات نہ تھی ۔ پاکستان آرمی کے آغاز کار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 14 اگست کو جب کراچی میں انتقال اختیار کی تقریب کے وقت جو پریڈ ہوئی تو بری فوج صرف ایک کمپنی پیش کر سکی ۔ اس تقریب کے موقع پر جن اکیس گولوں سے نئے گورنر جنرل ( قائد اعظم ) اور نئے ملک کو سلامی دی گئی ، وہ گولے آرمی کے نہیں تھے بلکہ کھاردر کراچی کے آتش باز سے جو شادی بیاہ کے موقعوں پر گولے بنایا کرتے تھے ، راتوں رات بنوائے گئے تھے ۔ کسی بھی ملک کی مسلح افواج کی طرح پاکستان آرمی کا پہلا فریضہ بھی ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہے ۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اس کا سابقہ ایک ایسے ملک انڈیا جس کے تین حصے کر دینے سے یہ وجود میں آیا تھا ، اس لئے انڈیا کی دشمنی کی وجہ قدرتی ہے ۔ پاکستان آرمی نے انڈیا کی سرحدی جھڑپوں ، شرارتوں ، سازشوں اور کھلے میدانوں میں بار بار مقابلہ کر کے سرخروئی حاصل کی ۔ اس کے علاوہ اندرون ملک امن و امان قائم کرنے میں بھی پاک فوج نے اہم کردار کیا ۔ فرقہ ورانہ فسادات ہوں یا پھر دہشت گردی پاک فوج نے امن و امان کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ سیلاب ، زلزلہ و دیگر قدرتی آفات میں پاک فوج ہمیشہ اہالیان وطن کی مدد کیلئے سب سے پہلے پہنچتی ہے۔ اب بھی دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج وزیرستان و دیگر علاقوں میں نبرد آزما ہے ۔ ملک کی مسلح افواج تین حصوں میں تقسیم ہے ، پاکستان آرمی ، پاکستان نیوی ( بحری ) اور پاکستان ایئر فورس ( فضائیہ ) ۔ تینوں مسلح افواج کے سربراہوں پر ایک ایک جوائنٹ چیف مقرر کیا گیا ہے ۔ صدر مملکت تینوں مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے ۔ وزارت دفاع دفاعی پالیسیاں وضع کرتی ہے ۔ پاکستان آرمی کا صدر دفتر آرمی ہیڈ کوارٹر کہلاتا ہے جو کہ راولپنڈی میں ہے ۔ آرمی ہیڈ کوارٹر کے چھ شعبے ہیں جن میں ہر ایک کا اعلیٰ افسر لیفٹیننٹ جنرل ہوتا ہے ۔ یہ چھ شعبے جنرل سٹاف برانچ، ایڈ جوائنٹ جنرل کی برانچ، کوارٹر ماسٹر جنرل ، ماسٹر جنرل ، آرڈیننس برانچ، انجینئر انچیف برانچ ، ملٹری سیکرٹری برانچ ہیں ۔ پاکستان آرمی کے سینئر اور جونیئر عملے کے درجہ بدرجہ عہدے نیچے سے اوپر تک یہ ہوتے ہیں ۔ جونیئر عملے میں پہلے جوان ،پھر سوار، ، سپاہی ، لانس نائیک ، نائیک ، حوالدار، دفعدار ، رسالدار، نائب صوبیدار، صوبیدار، رسالدار میجر، صوبیدار میجر جبکہ سینئر عملے میں پہلے سیکنڈ لیفٹیننٹ ، لیفٹیننٹ ، کیپٹن، میجر ، لیفٹیننٹ کرنل ، کرنل ، برگیڈیئر ، میجر جنرل ، لیفٹیننٹ جنرل پھر سب سے آخر میں جنرل ہوتے ہیں ۔ پاکستان کی تینوں دفاعی افواج کا مقابلہ صرف ایک دشمن بھارت سے ہے کیونکہ بھارت آبادی اور رقبے میں پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے، اس لئے پاکستان کو ہمیشہ چکنا رہنا پڑتا ہے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں امریکا نے پاکستان کو دھوکہ دیا ، اس لئے پاکستانی کی مسلح افواج نے خودانحصاری کیلئے ادارے قائم کئے ، جن میں نیشنل لاجسٹک سیل ، اسلحہ ساز فیکٹری ، میزائل تجربات ، بحری جنگی جہاز کی تیاری اور ایٹمی طاقت شامل ہیں ۔ مسلح افواج کے ذیلی ادارے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، پاکستان آڑڈیننس فیکٹری ، سکول آف آرنری اینڈ میکنائز ویلفیئر، سکول آلٹری ، سکول آف آرمی ایئر ڈیفنس، ملٹری کالج آف انجینئرنگ ،ملٹری کالج آف سگنلز ، ایوی ایشن سکولز، آرمی میڈیکل کالج ، آرڈیننس کالج ، ملٹری پولیس سکول ، ملٹری اکیڈمی ، کیڈٹ کالجز ، سٹاف کالج وغیرہ ملک کی حفاظت کیلئے نوجوانوں کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔پاک فوج کا ایک ادارہ فوجی فاؤنڈیشن بھی ہے جو کہ ریٹائرڈ فوجیوں کی فلاح و بہبود کیلئے خدمات سر انجام دیتا ہے ۔پاک فوج کا ایک مربوط نظام موجود ہے ، جس کے باعث پانچ گنا بڑے ملک دشمن کو جارحیت کی جرات نہیں ہوئی ۔ اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہیں کہ بھارت نے جنگ شروع کی تو ختم ہم کریں گے ۔