علامہ اقبال کو اپنے عہد کے جس نقشبندی بزرگ سے سب سے زیادہ عقیدت تھی، وہ شیر ربّانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری ؒ تھے،جن کا سلسلۂ طریقت13 واسطوں سے امام ربّانیؒ،حضرت مجدّد الف ثانیؒ سے متصل ہوتا ہے۔ حضرت میاں صاحبؒ1865ء میں، حضرت میاں عزیز الدین کے ہاں شرقپورشریف میں پیدا ہوئے، آپؒ کے وجود سعید کی برکتوں سے سرزمین پنجاب میں اعلا ئے کلمۃُ الحق اور احیائے سنتﷺ کے عظیم کارنامے سر انجام پائے۔انیسویں صدی کے رُبع آخر سے لیکر بیسویں صدی کے نصف اوّل تک ، حضرت میاں صاحبؒ اور آپ ؒ کے خلفا نے آپؒ کے قائم کردہ ’’نظم مرکزی‘‘ کے تحت نہایت،فقید المثال روحانی، دینی اور اصلاحی خدمات سر انجام دیں، اور یوں سکھ عملداری اور انگریز راج کے سبب دین سے بیگانگی اور اسلام سے دوری کا تدارک، شریعتِ مطہرہ کی ترویج کے ذریعے ، آپؒ نے ممکن بنایا ۔علامہ اقبالؒ... حضرت میاں صاحبؒ کے ہم عصر تھے، جس طرح انہوں نے سرہند شریف حاضر ہوکر ، حضرت مجدّد الف ثانیؒ کے مزار اقدس سے اکتسابِ فیض کیا، اسی طرح ، آپؒ حضرت میاں صاحب شرقپوریؒ سے بھی بالمشافہ ملاقات کے متمنی تھے، علامہ اقبال ؒ کی شرقپور حاضری کے حوالے سے بہت سی روایات لوگوں میں معروف ہیں، آپؒ کے سالانہ عرس بمطابق3 دسمبر2016 کی اختتامی تقریب میں دربار شریف کے موجودہ سجادہ نشین صاحبزادہ میاں محمد ابوبکر صاحب نے آپؒ کی بارگاہ میںحاضری کا جو واقعہ سنایا وہ زیادہ معتبر ہے۔ویسے اس خاندانی اور صدری روایت کے علاوہ جی سی یونیورسٹی شعبہ فلاسفی کے سابق چیئر مین ڈاکٹر محمد طفیل سالک نے’’ سلسبیل ‘‘ میں بھی اسے روایت کیا ہے ۔ علامہ اقبالؒ پہلی مرتبہ شرقپور شریف ،اپنے دوست سر محمد شفیع کیساتھ آئے۔سر میاں محمد شفیع، باغبانپورہ لاہور کے رہائشی ، اعلیٰ تعلیم یافتہ، لاہور کے معزز گھرانے کے فرد، سیاستدان اور حضرت میاں صاحبؒ کے خالہ زاد تھے۔ حضرت میاں صاحبؒ اکثر سر محمد شفیع کو تنبیہ اور نصیحت بھی فرما یا کرتے کہ اے کاش!: تیرے چہرے پر داڑھی ہوتی اور تو شکل و صورت سے مسلمان لگتا، انگریز کونسل کے اجلاس میں، اجلاس کے دوران ، نماز کا وقت ہوتا اور تُو اُٹھ کر نماز اداکرنے جاتا، انگریز بھی دیکھتے کہ تُو مسلمانوں کا واقعی سچا نمائند ہ ہے۔ سر محمد شفیع سے قریبی رشتہ داری کے سبب شفقت بھی فرماتے ، حضرت میاں صاحبؒ کی آبائی رہائش ، اندرون شہر ، ملکانہ گیٹ میں واقع تھی،شرقپور شریف، شاہ جہان کے عہد کا شہر ، جس کی آبادی اندرون شہر "Walled City" تک محدود تھی ، داخلے کے چار دروازے تھے ، بالعموم چھوٹی اینٹ کی عمارتیں، تنگ گلیاں اور محدود سڑکیں تھیں۔آپؒ کی رہائش کے قریب ہی آپؒ کی مسجد تھی ، جوآپؒ کی نسبت سے" مسجد حضرت میاں صاحب والی" کہلواتی، یہیں پر آپؒ خطبہ جمعتہ المبارک بھی ارشاد فرماتے اور دیگر روحانی اور دینی اشغال کے لیے قیام بھی فرماتے ،اس مسجد کی ابتدائی توسیع1923ئ، مابعد 1944ئ، ازاں بعد پچیس سال قبل... جب موجودہ سجادہ نشیں صاحب کی سرکردگی میں اس کا اہتمام ہوا، تو زیر زمین پرانی مسجد کا سٹرکچر، اور آپؒ کی قدیم چلہ گاہ جیسے"بھورا" کہتے تھے، کی زیارت کا راقم کو بھی شرف میسر آیا۔ علامہ اقبال اپنی اوّلین حاضری میں سر محمد شفیع کے ساتھ اسی مسجد میں اُترے،شفیع صاحب، اس خیال سے کہ اگر میاں صاحبؒ کی طبیعت پر زیادہ جلال غالب نہ ہوا، تو اقبال ؒ کو گھر پہ ہی بلا لوں گا، وگرنہ...آپؒ کے سوانح نگار صاحبِ ’’انقلابُ الحقیقت‘‘نے آپؒ کے جلال اور جمال کے بارے میں خوب لکھا کہ حضرت میاں صاحبؒ کا جلال کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتا اور جمال آگے سے ہٹنے نہ دیتا ، جو ایک بار حاضر ہوا پھرکہیں اور جانے کا نہ رہا ، جس وجود میں آپؒ کی محبت سرایت کر گئی ، وہ روشن ہوگیا، جو خاندان اس صفت سے متصف ہوا وہ منور ہوگیا... بہر حال حضرت میاں صاحبؒ جلال میں تھے، علامہ اقبالؒ پیش ہونے کی ہمت نہ کرسکے۔سر محمد شفیع جو"جنگ عظیم اوّل" میں انگریز کی کامیابی کی درخواست پیش کرنا چاہتے تھے، وہ بھی ایسا نہ کر سکے ، اور یہ دونوں شخصیات اس خیال اور اُمید پہ واپس لاہور چلی آئیں کہ حضرت میاں صاحبؒ کبھی کبھار اپنی خالہ صاحبہ، یعنی سر محمد شفیع کی والدہ کو ملنے بھی تشریف لاتے تھے شاید یہ اُمید وہاں بَر آئے۔ آپؒ کو لاہورمیںحضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کی حاضری بڑی مرغوب تھی ، فرمایا کرتے تھے، جس کے پاس مدینہ شریف حاضری کا سامان نہ ہو ، وہ داتا صاحبؒ کے مزار پر حاضری دے دیا کرے۔ حضرت شاہ محمد غوث ؒ کے مزار کی زیارت کے علاوہ ، نقشبندی سلسلے کے ایک عظیم بزرگ خواجہ خاوند محمود، جو حضرت ایشاں کے نام سے بھی معروف تھے ، کے دربار پر بھی حاضری کا شوق فرماتے ، جن کا مزار بھی باغبانپورہ ہی میں ہے ، چنانچہ کچھ ہی دنوں کے بعد حضرت میاں صاحبؒ ،سر محمد شفیع کے ہاں تشریف لائے ، تو وہیں پر علامہ اقبالؒ کو بھی ملاقات کا شرف عطا ہوا، چونکہ آپؒ داڑھی نہ رکھنے والوں کو سخت ناپسند فرماتے تھے، اس لیے علامہ اقبال کی طرف بھی ا لتفات نہ فرمایا، چہرہ پر ناگواری کے اثرات دیکھ کر ، علامہؒ نے اپنا وہ معروف جملہ عرض کیا کہ"گناہ سے نفرت ہونی چاہیے، نہ کہ گنہگار سے " اقبالؒ کی بات سُن کر میاں صاحبؒ کے چہرے پہ تبسم آیا، مُسکرا کر فرمایا"بیلیا!تُو تیَ ناراض ای ہوگیا ایںـ"بیلیا! یعنی اے دوست، یہ آپؒ کا مخصوص اندازِتخاطب تھا،، جو کہ کسی نہ کسی سطح پر اب بھی شرقپورشریف کی خانقاہ میں مروّج ہے۔آپؒ نے ازرہِ محبت اقبالؒ کے کندھے پہ دستِ شفقت رکھا، جس کی بابت اقبالؒ نے کہا کہ مجھے یوں لگا، جیسے میرے وجود میں کوئی نورانیت سی کوند گئی ہو۔آپؒ سے اپنی معروضات پیش کیں، علامہ اقبالؒ اس ملاقات سے بہت سرشار اور از حد متاثر ہوئے، واپس آکر ، عالمِ محویت میںاپنی کیفیات اپنے معروف اشعارمیں بیان کیں ،جو حضرت میاں صاحب کی زیارت کے وقت ،ان کے قلب پہ وارد ہوئیں، بانگ درا میں منقول ان شہر ۂ آفاق غزل،اشعار میں سے چندایک ملاحظہ ہوں : " جنہیں میں ڈُھونڈتا تھا" آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہوتو دیکھ ان کو یدِبیضا لیئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں جِلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موجِ نفس اُنکی اِ لہٰی کیا چھپا ہوتا ہے، اہلِ دِل کے سینوں میں تمنا درد ِدل کی ہو، تو کر خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں مہینے وصل کے گھڑیوں کی مانند اُڑتے جاتے ہیں مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں خاموش اے دل! بھری محفل میں چلّا نا نہیں اچھا ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں اس کے بعد علامہ اقبالؒ نے آپؒ کی بار گاہ میں حاضری کا متعدد مرتبہ شرف پایا۔ (جاری ہے)