میری حیرت کا تصور ہے وہی ذات کہ جو جہاں ہوتے نہیں اسباب، بنا دیتی ہے میری آنکھوں کو وہ خالی نہیں رہنے دیتی کہیں تارہ کہیں مہتاب بنا دیتی ہے ویسے اس ذات کو اسباب پیدا کرنے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اسے تو کن کہنے کی بھی ضرورت کب تھی۔شاید صرف ہمارے محدود ذھنوں میں بات بٹھانے کے لئے اسباب تو فطرت میں پہلے سے بھی موجود ہیں۔ کس کو معلوم تھا کہ ہوا کے دوش پر کیا کچھ سفر کرتا ہے کس کو معلوم تھا کہ بے حیثیت مچھر اپنے ناتواں پروں پر موت اٹھائے پھرتا ہے اور کس کے علم میں تھا کہ ایک ذرے میں تباہی کے کیا کیا امکانات ہیں۔ اصل میں بات مجھے کرنا تھی کرونا وائرس کی کہ اس کا خوف اس سے بھی زیادہ پھیل چکا ہے۔ شاید ہم اتنا ڈر گئے ہیں کہ جتنا خدا سے بھی نہیں ڈرتے۔ خیر خدا سے تو ہم بالکل بھی نہیں ڈرتے وگرنہ اس نازک اور تشویش ناک صورت حال میں جب وائرس آدھی دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے ہم اس پر مذاقیہ پوسٹس لگا رہے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اللہ سے اس کی پناہ مانگتے مگر بات تو ساری یقین کی ہے۔ کچھ پوسٹیں لطیف ہیں مگر بامقصد ہیں ایک محترمہ نے درست کہا ہے کہ خدا کے لئے ہوش کے ناخن لیں اور یہ افواہ نہ پھیلائیں کہ پیاز میں کرونا وائرس کا علاج ہے وگرنہ پیاز 500روپے کلو ہو جائے گا اس خدشہ میں سچائی موجود ہے کیونکہ ڈینگی بخار کی وبا میں یہ بات پھیل گئی کہ پپیتہ کے پتوں میں ڈینگی کا علاج ہے اور پھر ہسپتالوں سے باہر بھی پانچ پانچ صد روپے کا ایک پتہ بھی بکا۔ بھیڑ چال تو ویسے ہی بدنام ہے انسان ان سے آگے ہے۔ ابھی آپ ماسک والا معاملہ دیکھ لیں کہ کئی سو گنا قیمتیں بڑھا کر ماسک بیچے جا رہے ہیں۔ انسان کتنا دلیر ہے کہ موت کے خوف کو بھی کیش کرواتا ہے۔ملاوٹ کر کے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے یہی درندے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر شقی القلب کہ زندگی بچانے والی دوائیں بھی جعلی بنا کر بیچتے ہیں۔ شیطان نے اس کے بارے میں اللہ سے صحیح تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اللہ کی پناہ کرونا سے بچائو کے کیا کیا نسخے سوشل میڈیا پر آ گئے ہیں کسی کو احساس نہیں کہ اس سے ہراس پھیل رہا ہے۔ انسان کی نفسیات عجیب ہیں کہ اسے سانپ کاٹ جائے اور اسے مینڈک دکھایا جائے تو وہ بچ سکتا ہے مگر مینڈک کے کاٹ جانے کے بعد اس کو سانپ دکھائی دے تو وہ نہیں بچے گا۔ ان فضول کی افواہیں پھیلانے والوں سے وسیم اکرم کی بیوی شیزا اچھی ہے کہ اس نے کرونا سے بچائو کے لئے پاکستانیوں کو صاف ستھرا رہنے کی تلقین کی ہے۔ یہ صفائی ستھرائی کہ جو نصف ایمان ہے ایک نہیں ہزار بیماریوں سے انسان کو بچاتی ہے۔ ایک گفتگو میں ہمارے دوست ڈاکٹر ناصر قریشی اور ڈاکٹر محمد علی شریک تھے اور بات بھی کرونا وائرس پر ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر محمد علی کا موقف یہ تھا کہ یہ وائرس پھیلنے پر آتا ہے تو رکتا نہیں ہے وہ کہنے لگے کہ یہ ماسک وغیرہ تو احتیاطی تدابیر ہیں اور ایک حد تک نفسیاتی حربہ بھی۔ باقی اللہ حافظ ہے وہی حفاظت کرتا ہے وہ ساری عمر ٹی بی وارڈ میں کام کرتے رہے اور اللہ نے تندرست و توانا رکھا۔ ڈاکٹر ناصر قریشی نے اس ضمن میں بڑی پتے کی باتیں کیں۔ کہنے لگے کہ سرجری کی دنیا میں سب سے بڑی دریافت proper hand washing ہے یعنی اچھے انداز میں ہاتھ دھونا۔ مزید وضاحت سے بتایا کہ ہاتھ کی انگلیوں میں کنگھی کر کے ملنا ضروری ہے کہ انگلیوں کے اندرونی حصے نظر انداز نہ ہوں یہ وہی انداز ہے جو وضو کرتے ہوئے ہم اپناتے ہیں۔ پھر دوسری سنت یہ کہ انہیں صاف نہ کیا جائے خشک ہونے دیا جائے۔ اس کے بعد دوسرا اہم عمل یہ ہے کہ آپ اچھی طرح کلی کریں۔میں سوچنے لگا کہ واہ واہ یہاں مسواک کس قدر اہم ہے۔ بات ہوتے ہوئے اس پر آئی کہ لیکوڈ یعنی مائع اشیاء کا استعمال بھی بہت اہم ہے کھانے کی بات چلی تو پتہ چلا کہ اگر آپ نے کوئی کھانا مس کر نا ہے تو وہ دوپہر کا ہونا چاہیے ناشتہ اچھا کریں اور پھر رات کا کھانا ہر صورت میں کھائیں اور صحت کا سنہری اسلوب وہی ہے جو حضور کریمؐ نے بتایا تھا کہ بھوک رہ جائے تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لو۔مگر ہم جو ہر کھانے کو آخری کھانا سمجھ کر کھاتے ہیں کہاں رکتے ہیں۔ کسی نے یہ سوال کیا کہ بچوں کا کیا کیا جائے کہ سکول جاتے ہوئے وہ ناشتہ کرتے ہوئے ضد کرتے ہیں کہ بھوک نہیں۔ اس کا جواب یہ آیا کہ مائوں کو چاہیے کہ بچوں کو علی الصبح بیدار کریں۔ بھوک لگنے میں گھنٹہ دو گھنٹے لگتے ہیں میرے پیارے قارئین مجھے جو بھی باتیں مفید لگیں وہ آپ کا حق سمجھ کر لکھ رہا ہوں ہم اپنی وراثت پر بات کرنے کی بجائے انگریزوں کے اقوال پر جاتے ہیں مثلاً after lunch sleep a while and after dinner walk a mile ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ قیولہ اور رات کے کھانے کے بعد کی چہل قدمی ہمیں چودہ سو سال پہلے بتا دی گئی۔ ہمارے شاعر بھی کتنی حکیمانہ باتیں کرتے آئے ہیں۔ میاں محمد کہتے ہیں: کھا دے اُتے کھائیے نہ ‘ نئیں تے کھا کے ویکھ بن بلائے جائیے نہ نئیں تے جا کے ویکھ اللہ نہ کرے کہ ایسی صورت پیدا ہو اگر ہو تو اس میں ڈاکٹر اچھی قدرتی غذا لینے کا کہتے ہیں۔ بار بار پانی کا استعمال۔ اصل میں اندر مدافعت کے لئے طاقت ضروری ہے۔ منہ اور حلق کو تر رکھتا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ اس وائرس کا بھی ایک سائیکل ہے۔ ڈینگی بھی سائیکل پورا کر کے اتر جاتا ہے۔ اب گرمی آ رہی ہے تو قدرت اس وائرس کو ختم کر دے گی۔ یہ آفتیں اللہ کے لشکر ہیں ہمیں احساس دلانے کے لئے یہ باتیں ہی ہیں کہ امریکہ کے دشمن ملکوں میں یہ وائرس آخر کیوں پھیل رہا ہے یہ پراپیگنڈا بھی شاید امریکہ ہی کروا رہا ہے کہ وہ کہیں بھی موت بانٹ سکتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ امریکہ نے کالوں کو کمبل دیے تھے تو ان میں چیچک کے جراثیم تھے۔ اس سے بعید نہیں مگر یہ کرونا وائرس ضروری نہیں کہ امریکہ کا حملہ ہو۔ ڈینگی کے بارے میں بھی یہی افواہیں تھیں اللہ کرے کہ ڈاکٹرز اس کی ویکسین ڈھونڈ لیں یقینا پنسلین کی طرح یہ بھی فطرت میں موجود ہو گی اور کوئی فلیمنگ جیسا انسانیت کا محسن اسے دریافت کر لے گا۔ افسوس یہ کہ یہاں بھی سیاست در آئی اور پروپیگنڈا کے ذریعہ چین کو تنہا کر دیا گیا۔ یہ پراپیگنڈا ہر جگہ چل رہا ہے ہمارے ہاں ایک ہی بات سوشل میڈیا پر چل رہی ہے کہ ماسک مہنگے کرنے والا ہر دکاندار حاجی ہے حاجیوں کے علاوہ بھی تو کوئی ماسک بیچ رہا ہو گا۔