کیا کہیں ان سے خوشبو سے شناسا ہی نہیں کیا کہیں پھول سے بھی نام و نسب پوچھتے ہیں پہلے تو آگ لگاتے ہیں تماشے کے لئے اور پھر حال بھی وہ خندہ بلب پوچھتے ہیں اک تماشا سا سیاست میں بھی لگا ہوا ہے، کہیں نیب کے چیئرمین کی ویڈیو تہلکہ مچائے ہوئے ہے تو کہیں ہمارے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے دھومیں مچائی ہوئی ہیں۔ فواد چوہدری ہیں کمال کے آدمی کہ ’’جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے‘‘ وزارت اطلاعات میں ان کی جگہ فردوس عاشق اعوان آئیں تو وہ ان سے بھی تین ہاتھ آگے ہیں۔ فواد چوہدری کے حوالے سے محمد مشفق خواجہ صاحب کا دلربا جملہ یاد آتا ہے جو انہوں نے ایک خاتون کے بارے میں اس وقت لکھا تھا جب محترمہ کو اردو سائنس بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ خواجہ صاحب نے لکھا کہ اس خاتون کو اردو سائنس بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے۔ اچھا کیا کیونکہ محترمہ کو اتنی ہی سائنس آتی ہے جتنی آئن سٹائن کو اردو آتی ہے۔ ایک فواد چوہدری کیا اور ایک وہ خاتون کیا یہاں تو یہ چلن ہے کہ محکمے ان کو دیے گئے جن کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، ایک کو نندی پور پلانٹ کا سربراہ بھی تو بنایا گیا تھا۔ میرے پیارے اور معزز قارئین! میں نے اصل میں آپ کی توجہ حاصل کرنے کیلئے یہ دلچسپ تمہید باندھی تھی کہ مجھے سنجیدہ موضوع پر لکھنا تھا۔ لکھنا ہی کیا بس ایک کار خیر کی طرف آپ کی توجہ دلانا تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ماہ صیام میں آپ زکوٰۃ و صدقات نکالتے ہیں تو ضرور سوچتے ہیں کہ کون اس کا مستحق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دور میں ہمارے خیراتی ادارے ہماری توجہ کے طالب ہیں۔ سردست الخدمت فاؤنڈیشن جو کہ یتیم بچوں کیلئے غیر معمولی کام کر رہی ہے۔ میں نے تو خود انہی کو زکوٰۃ بھیجی ہے یہ کوئی احسان نہیں کیا اور نہ میں یہ دکھاوے کیلئے لکھ رہا ہوں۔ یہ تو ایک ترغیب ہے۔ وہ بڑا کام اس لئے ہے کہ میرے آقاؐ نے اس حوالے سے اپنی دو انگلیاں شہادت کی اور ساتھ والی اکٹھی کرکے بتایا تھا کہ جو یتیموں کا خیال رکھے گا وہ قیامت کو میرے ساتھ ایسے ہو گا۔ اب یہ سرورؐ کائنات کا وعدہ ہے۔ وہ لوگ کتنے عظیم ہیں جو صبح و شام ہزاروں یتیم بچوں کی پرورش ہی نہیں ان کی تعلیم کا بندوبست بھی کئے ہوئے ہیں۔ میں کسی کا نام نہیں لکھ رہا کہ وہ اس شہرت سے بے نیاز ہیں۔ اس کا اجر بھی ہماری سوچ سے آگے ہے۔ اس کے بعد غزالی ٹرسٹ والے ہیں وہ تو یتیم بچوں کے ساتھ ساتھ معذور بچوں کیلئے بھی بہت کچھ کر رہے ہیں، ان کے منصوبوں کی تعداد سن کر ہی بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ انہوں نے پورے ملک میں اپنے اداروں کا جال بچھا دیا ہے۔ نور الہدیٰ نے اس مرتبہ بھی افطاری کیلئے فون کیا مگر میں تو کسی بھی افطاری میں نہیں جا سکتا کہ الحمد لاللہ تین چار سال سے میں تراویح کا باقاعدہ اہتمام کرتا ہوں اور پورا قرآن پاک سنتا ہوں۔ اس عمل کی تھکاوٹ بھی لذت آشنا کرتی ہے۔ یہ خیراتی ادارے بے شک بہت بڑا کام کر رہے ہیں، سید عامر محمود کو اللہ جزا دے کہ انہوں نے کام اتنا پھیلا دیا ہے کہ 45 ہزار یتیم بچے تعلیم پا رہے ہیں۔ اب نام آیا تو الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر عبدالشکور صاحب کا نام بھی لکھ دیتا ہوں۔ ان کے میڈیا ایڈوائزر شعیب ہاشمی نے بتایا کہ وہ نہ صرف یہاں کے یتیم بچوں بلکہ شام اور دوسرے متاثرہ ملکوں کے یتیم بچوں کی بھی کفالت کرتے ہیں۔ ابھی میں ترغیب کا ذکر کر رہا تھا تو میری بیگم نے بات سنی تو کہنے لگی میری طرف سے انہیں پانچ ہزار روپے زکوٰۃ بھجوائیں۔ شوکت خانم کا نام کس کی زبان پر نہیں ہے جہاں کینسر کے مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ یہاں بھی ہم عملی طور پر پیسے بھیجتے ہیں۔ میں نے خود وہاں وزٹ کیا ہے کہ میرا ایک کزن وہاں ایڈمٹ تھا جو ٹی وی میں کام بھی کرتا رہا، اس نے مجھے تفصیل بتائی کہ واقعتاً وہاں مجبور اور لاچار لوگوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔ اس کی زبان سے تعریف اور توصیف بہت اچھی لگی۔ یہ یقیناً عمران خان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے مگر اب یہ ادارہ قوم کا ہے اور یہاں بھی دل کھول کر اعانت کرنی چاہئے۔ اس کے بعد مجھے تذکرہ کرنا ہے اخوت کا کہ جو دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے جو مواخات مدینہ کی طرز پر اربوں روپے کے قرض غریبوں کو دیتی ہے اور کسی سود کے بغیر، ہمارے سجاد میر صاحب یا کسی اور ہمارے کالم نگار نے ڈاکٹر امجد ثاقب کو لیجنڈری کردار لکھا تو غلط نہیں لکھا، ان سے ایک تعلق خاطر ہمارے دوست ڈاکٹر ہارون رشید کی وساطت سے بھی ہے۔ ویسے بھی ڈاکٹر امجد ثاقب مجھے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ’’آپ سے ہارون کی خوشبو آتی ہے‘‘ یہ فقرہ میرا اعزاز ہے۔ڈاکٹر ہارون رشید کا ادارہ فاؤنٹین بھی آپ کی راہ دیکھتا ہے۔ یہاں وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے گھر والے بھی برداشت نہیں کرتے۔ ڈاکٹر عبدالرشید کا لگایا ہوا یہ پودا کتنے ذہنی مریضوں کو آسودگی بخش رہا ہے۔ اس کے معاملات بھی ڈاکٹر امجد ثاقب دیکھتے ہیں۔ اخوت اور فاؤنٹین ہاؤس ایسے ادارے ہیں کہ پوری قوم کو ان کے بنانے والوں پر فخر ہے اور تو اور فاؤنٹین ہاؤس نے خواجہ سراؤں کے سر پر بھی ہاتھ رکھا۔ میں نے خود ان کی تقاریب میں دیکھا کہ پہلی مرتبہ خواجہ سراؤںکو عزت نفس کا احساس ہوا۔ انہیں نہ صرف مدد ملتی ہے بلکہ انہیں ہنر بھی سکھایا جاتا ہے۔ اب کے گورنر ہاؤس میں فاؤنٹین ہاؤس کے لوگوں کیلئے افطاری تھی۔ ڈاکٹر عمران صاحب کی طرف سے دعوت ملی مگر وہی تراویح پڑھنے کا مسئلہ تھا۔ ’’میں ان کا بندہ بنوں گا جن کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا‘‘۔ سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہم رکاب ہوا جو اپنے آپ سے نکلا وہ کامیاب ہوا یہ شعر ڈاکٹر ہارون رشید کے کمرے میں آویزاں ہے۔ واقعتاً وہی لوگ بڑے لوگ ہیں جو اپنے آپ سے نکل جاتے ہیں اور دوسروں کیلئے جیتے ہیں۔ ایک نام ڈاکٹر عامر عزیز کا میں کیسے بھول سکتا ہوں کہ انہوں نے بھی اپنے آپ کو لوگوں کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ گھرکی ہسپتال میں وہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ ٹرسٹ بھی بے انتہا ترقی کر چکا ہے اور اللہ اس کے مالکان کو جزا دے کہ وہ اسے نئے انداز میں اپ ٹو ڈیٹ کرتے جا رہے ہیں اور آرتھوپیڈک کے علاوہ بھی اور شعبے کھولتے چلے جا رہے ہیں۔ آخر اپنے محبوب ادیب کا ذکر کہ جن کا دوسرا نام ہی سندس پڑ گیا تھا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے منو بھائی۔ انہوں نے تھیلسیمیا کے بچوں کے علاج کرنے والی سندس کیلئے عمر وقف کر دی تھی۔ ایاز خان اس کے روح رواں ہیں۔ جدید ترین علاج یہاں کیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کا روشن چہرہ ہے اور خدمت انسانی کا استعارا۔ جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں