سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیزکے سامنے ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ رپورٹ کیا ہے‘ سیدھی سیدھی ایف آئی آر کہیں جو ماضی کے حکمرانوں اور ان کی اولادوں پر بنتی ہے۔ وزارت خارجہ کے افسر سید زاہد رضا نے کمیٹی کو بتایا کہ بیرونی ممالک میں غیر قانونی قیام رکھنے والے پاکستانی وطن واپسی کی بجائے ان ممالک میں ذلت آمیز مزدوری اور جیل میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بوسنیا ہرزگوینا کے جنگل کیمپ میں چار ہزار پاکستانی مقیم ہیں۔ یہ کیمپ بوسنیا میں پاکستانی مشن سے چار سو کلو میٹر دور واقع ہے۔ اسی طرح ترکی میں 50ہزار کے قریب پاکستانی شہری یہاں سے نکلنے کے منتظر ہیں۔ ترکی سے 20ہزار غیر قانونی مقیم پاکستانی شہری پہلے ہی وطن واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ پاکستان کے وسائل پر بددیانت افراد قابض ہو چکے ہیں۔ ایک طبقہ ہے جو بیورو کریسی‘ تجارت اور سیاست پر یکساں کنٹرول رکھتا ہے۔ ان کا ایمان پیسہ ہے۔ یہی وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں ایک امریکی نے کہا تھا کہ ’’پاکستانی روپے کی خاطر اپنی ماں کو بھی فروخت کر سکتے ہیں‘‘ تب ہمیں یہ بات بری لگی تھی۔ ہم نے امریکی قوم اور اس اعلیٰ منصبدار کو گالیاں بھی دی تھیں۔ مگر افسوس ہم صفوں میں گھسے ان ماں فروشوں کو ختم نہ کر سکے۔ کسی گھر کسی شہر یا کسی ملک کا فخر بننے میں کیا محنت لگتی ہے ؟ بہت سے لوگ ابھرے‘ چھوٹے سے علاقوں سے آگے آئے۔ بھارت میں کمہار کے ہاں بیٹا ہوا۔ اکلوتی اولادمن سُکھ کو کمہار اپنے سے بہتر اور آسودہ زندگی دنیا چاہتا تھا۔ اس نے بیٹے کو کمہاربنانے کی بجائے ایک مکینک کے پاس شاگرد بٹھا دیا۔ بیٹے کے خمیر میں مٹی کی محبت اور پیار گندھا ہوا تھا۔ تھوڑا بڑا ہوا تو ظروف سازی کی طرف متوجہ ہوا۔ ایک سادہ سی مشین بنائی جس پر ابتدائی طور پر روٹی پکانے والے مٹی کے توے بنانے شروع کئے۔ شروع میں کوئی توا موٹا‘ کوئی پتلا‘ کوئی ٹیڑھا بن جاتا۔ کوالٹی کنٹرول کا مسئلہ پیدا ہوا۔ کمہار کا بیٹا مستقل مزاج رہا۔ سوا لاکھ کے قریب مٹی کے توے ضائع ہوئے۔ پھر وہ اعلیٰ معیار کے توے تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے رشتہ دار خاندان آٹھ دس افراد کی مدد سے ایک روز میں دوسو توے بناتے تھے۔ اس نے روزانہ ساڑھے تین ہزار توے تنہا بنانے شروع کر دیے۔ پھر ایک قدم آگے بڑھا۔ مٹی کے ڈنر سیٹ‘ مٹی کے گلاس ‘ مٹی کے چمچ بناتے بناتے وہ ایسا فریج مٹی سے بنانے میں کامیاب ہو گیا جو بجلی کے بغیر کام کرتا ہے۔ آج پچاس باون برس کا یہ کمہار ایک بڑے کارخانے کا مالک ہے۔ ہمارے ارباب طاقت و اختیار نے قوم سازی کے عمل پر توجہ نہیں دی۔ توجہ دی ہوتی تو نصاب تعلیم ایسے نوجوان سامنے لاتا جو اچھی نوکری کی خواہش میں تعلیم حاصل نہ کرتے بلکہ زندگی کو آسان اور بہتر بنانے والے کاروبار کی طرف مائل ہوتے۔ ساری ذمہ داری علامہ اقبال پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اقبال نے نوجوانوں کو فکر عمل دی ہے۔ عمل کی صورت گری حکومتیں کرتی ہیں۔ حکومتیں کن لوگوں کی ہیں، ان کی جو بریانی اور قیمے والے نان کی موٹی موٹی زنجیریں نوجوانوں کے پائوں میں ڈال دیتے ہیں۔ کوئی زمانہ تھا حکومتیں اپنے ترجمان نہیں فقط وزیر اطلاعات رکھا کرتیں۔ پڑھے لکھے۔ تول کر بولنے والے‘ جو بولتے وہ وزن میں پورا ہوتا۔ اب کام کرنے کو کچھ نہیں۔ ترجمانوں کی فوج بھرتی کر لی جاتی ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں‘ نت نئے بچگانہ خیالات اور تقسیم شدہ سوچ۔ ایسے میں کون بتائے کہ حکومت کی زبان ریاست کی بولی ہوتی ہے۔ اس زبان سے نوجوانوں کے لئے کیا برآمد ہوتا ہے۔ یہ حوصلہ افزا بات نہیںکہ نوجوان اب بھی ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ ریاست کی زبان پر ان کے لئے ہمدردی اور دل جوئی کا کوئی لفظ نہیں۔ کھیلوں کے میدان ابھی تک ویران ہیں یا ان پر قبضہ ہے۔ کھلاڑی بے آسرا اور لاوارث ہیں۔ وزیر اعظم نے چودہ پندرہ ماہ کے دوران کسی ایک کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کے لئے ملاقات نہیں کی۔ ادیبوں اور شاعروں کے کسی ایک وفد کو پانچ منٹ عطا نہیں ہوئے۔ ثقافت و تاریخ پر کام کرنے والوں کی خبر نہیں لی۔ ان لوگوں کے لئے وقت نہیں نکالا جنہوں نے پاکستان کے ناموافق حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نئے کاروبار شروع کئے اور کامیابی کی داستانیں رقم کیں۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے۔ ایک بار لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا۔ میرے علاوہ چندسینئر صحافی و ادیب بھی موجود تھے‘ میں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لئے تین بنیادی منصوبے شروع کئے۔ ہیوی میکنیکل کمپلکس ‘ الیکٹرونکس کمپلکس اور کیمیکل کمپلکس۔ قومی ضروریات کو اولیت دیتے ہوئے مکینیکل کمپلکس جلد مکمل ہو گیا۔ اب وہاں الخالد ٹینک اور ہیلی کاپٹر بنانے کے منصوبے روبہ عمل نظر آتے ہیں مگر دوسرے دونوں منصوبوں پر کام ان کی موت کے بعد جاری نہ رہ سکا۔ ان پر کام شروع کروا دیں۔ یوسف رضا گیلانی نے ایک طویل جواب دیا جس کا مفہوم یہی تھاکہ یہ منصوبے ترجیح نہیں۔ معلوم نہیں وزیر اعظم عمران خان یا ان کے کسی برسر اقتدار ساتھی کو قومی ترقی کی اس تاریخی کڑی کا علم ہے یا نہیں۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ کوئی ان کے کان میں یہ بات ڈال سکتا ہے یا نہیں کہ جناب یہ دو منصوبے مکمل کر کے پاکستان کو ضیاء الحق کی لگائی بریکوں سے نجات دلا دیں۔ وطن عزیز ہر سال اربوں ڈالر کا کیمیکل درآمد کرتا ہے‘ الیکٹرانکس کا شعبہ اب ٹیپ ریکارڈر اور فریج تک محدود نہیں رہ گیا اس کی اختراعات نے عقل کو دنگ کر دیا ہے۔ ان منصوبوں پر کام شروع ہونے سے ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان مریخ کیا آپ کو اس سے بھی آگے لے جا سکتے ہیں۔ یہ وہی نوجوان ہیں جنہیں آپ وقت نہیں دیتے‘ جنہیں آپ ملتے نہیں اور جن کے لئے آپ کچھ کرتے نہیں اور وہ اجنبی ملکوں کے جنگلوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ جناب وزیر اعظم ریاست کو ضرور وقت دیں مگر کچھ لمحے ریاست کے شہریوں کے لئے بھی مختص کر دیجیے۔ سونامی کے نام پر‘ تبدیلی کے نام پر‘ اپنی مصالحانہ صلاحیت کے نام پر پاکستان کے مایوس شہریوں سے بھی مل لیں۔ ان سے ترقی کا مطلب پوچھ لیں۔