اپنی بات کہنے کے لیے جذبات کا سہارا لینے والا اکثر حقائق کے نام پر تعصب اگلنے لگتا ہے۔ یہ بہت آسان ہے کہ محمود خان اچکزئی‘ ان کے خاندان اور بزرگوں کے کارنامے تلاش کر کے ان کا تعصب اور غلط بیانی بے نقاب کردی جائے۔ ایسا کچھ مواد اس کالم میں مل جائے گا کیونکہ پنجاب کا مقدمہ لڑنے کے لیے حقائق کو درست کر کے پیش کرنا ضروری ہے تاہم مقصد ایک بڑے منظر نامے میں رہ کر بات کرنا ہے۔ یہ 22 جون 1840ء کی بات ہے جب کاکڑ قبائل نے افغانستان کے لئے اہم کوئٹہ پر حملہ کیا۔کوئٹہ پر انگریز کی عملداری تھی۔ انگریز کپتان بین کی باضابطہ فوج نے غیر منظم کاکڑوں کو جلد ہی پسپا کردیا۔ مزید حملے کے خدشے اور کوئٹہ کی اہمیت کے پیش نظر لیفٹیننٹ ٹریورس نے قلعہ عبداللہ سے ایک دستہ کپتان بین کی مدد کے لیے کوئٹہ روانہ کیا۔ کوئٹہ کے قریب جا کر اسے کاکڑوں کی کثیر تعداد نے بدحواس کردیا۔ جنرل ناٹ کو جب ٹریورس کی کمزوری کی خبر ہوئی تو اس نے سالو خان اچکزئی کو بیس ہزار روپے دے کر کپتان بین کی مدد کے لیے بھیجا۔ یہ سالو خان اچکزئی ، محمود خان اچکزئی کے بزرگ تھے۔ سالو خان اچکزئی چھ سو گھوڑ سوار لے کر کاکڑوں پر حملہ آور ہوا۔ کاکڑوں کے مورچے منہدم ہو گئے۔ سالو خان کے کوئٹہ پہنچنے پر کپتان بین کو ڈھارس ہوئی۔ سالو خان اچکزئی کی مدد سے انگریز کپتان بین کی طاقت بڑھ گئی۔ کاکڑوں نے مستونگ کے بلوچ قبائل کو مدد کے لیے خطوط لکھے۔ خطوط میں بتایا کہ انگریزوں کی کوئٹہ میں حالت کمزور ہے۔ سارا وانی قبائل نے سردار محمد خان شاہوانی کی سرکردگی میں کوئٹہ پر یلغار کردی۔ 9 جولائی 1840ء کی رات سارا و انی لشکر نے کاکڑوں کے ساتھ مل کر کوئٹہ کا محاصرہ کرلیا۔ ایک ہفتہ گولیاں چلتی رہیں۔ اچکزئی جوان انگریزوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے۔ 17 اور 18 جولائی کی درمیانی رات جب قلعہ کی دیوار پھاند کر اندر اترنے کی منصوبہ بندی ہورہی تھی کہ وڈیرہ بنگلزئی کسی بات پر ناراض ہو کر سارا وانی لشکر سے الگ ہو کر واپس مستونگ چلا گیا‘ سارے لشکر میں بد دلی پھیل گئی۔ اگلے دن تمام سرداروں نے بوریا بستر سمیٹا اور گھر چلے گئے۔ کاکڑ بھی مایوس ہو کر منتشر ہو گئے۔( تاریخ بلوچستان از گل نصیر خان) علی جعفر زیدی صاحب نے ایک حوالہ فراہم کیا ہے۔ لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس کے مارٹن بیلے کی کتاب مئی 2016ء کو کیمبرج یونیورسٹی پیرس نے شائع کی۔Taming the imperial imagination.۔ مارٹن بیلے اچکزئی قبیلے کے بارے میں لکھتے ہیں: جنوبی قندھار کے میدانوں اور پہاڑیوں میں آباد اچکزئی تہذیب سے کوسوں دور ہیں۔ کوئی سیاح ان کے علاقے سے لٹے بغیر نہیں جاتا۔ یہ لوگ رات کے وقت چوری کے لیے اپنے ہمسایوں کے علاقے میں گھسنے میں عار نہیں جانتے۔ ’’بلوچستان کا مسئلہ خود مختاری کا آغاز‘‘ از زاہد چودھری‘ حسن جعفر زیدی میں Aplhinstone کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ محمود اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی کا تعلق انڈین نیشنل کانگرس سے تھا۔ یہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ عبدالصمداچکزئی ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کا ممبر بننا چاہتے تھے مگر الیکشن میں کوئٹہ میونسپلٹی اور شاہی جرگہ کے اراکین کی اکثریت نے نواب محمد خان جوگیزئی کو منتخب کرلیا۔ جوگیزئی نے قائداعظم کے نام اپنے خط میں قیام پاکستان کی جدوجہد میں وفاداری کا یقین دلایا تھا۔ عبدالصمد اچکزئی انڈین نیشنل کانگرس کی ایما پر ’’آزاد بلوچستان‘‘ اور عبدالغفار خان و حکومت افغانستان اور آزادپٹھانستان کا نعرہ لگا رہے تھے۔ لاہور اور پنجاب کو برباد کرنے والے احمد شاہ ابدالی کی فوج کے ستر فیصد افراد کا تعلق بارکزئی اور اچکزئی قبیلے سے تھا۔لاہور سے محمود اچکزئی کی نفرت کا ایک سرچشمہ یہ بھی ہے۔ بات سارے پختونوں کی نہیں جو قومی یکجہتی کے لیے پنجابیوں‘ سندھیوں‘ بلوچوں اور پختونوں میں امتیاز نہیں کرتے وہ لوگ قابل احترام ہیں۔ یہ حق بھی تسلیم کہ اپنی نسلی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیں کردار ادا کرنا چاہیے۔ پچھلے دنوں سندھ کا یوم ثقافت سندھ سے زیادہ پنجاب میں منایا گیا۔ پنجاب میں لاکھوں پختون آباد ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے آبائی علاقے میں خان ان کے ساتھ ظلم کرتے تھے‘ وہاں ان کی جان محفوظ تھی نہ مال۔ پنجاب میں وہ مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ وہ پنجاب ہے جو آزادی کے بعد قومی یکجہتی کی سب سے مضبوط علاقائی علامت بن کر ابھرا۔ یہاں چاکر اعظم کا مزار ہے‘ یہاں خوشحال خان خٹک کے قدردان ہیں‘ یہاں شاہ لطیف اور سچل کے دیوانے ہیں۔ سب کے لیے محبتیں نچھاور کرنے والا پنجاب جواب میں محبت چاہتا ہے‘ کسی اچکزئی کی الزام تراشی نہیں۔ محمود خان اچکزئی نے پنجاب کے دل لاہور میں کھڑے ہو کر کہا کہ لاہوریوں نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش میں انگریز کا ساتھ دیا‘ انہوں نے کہا کہ لاہوریوں نے ہندوئوں اور سکھوں کا ساتھ دیا۔ پہلے ہندوئوں اور سکھوں والی تاریخ کی بات ہو جائے۔ جناب اچکزئی اٹھارویں صدی کے پنجاب کی بات کر رہے ہیں جب لاہور پر رنجیت سنگھ کی حکومت ابھی نہیں قائم ہوئی تھی۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب مرھٹوںنے دیہاتیوں کو لوٹنا شروع کردیا.. کچھ لوگوں کے انہوں نے ہاتھ ' ناک اور کان کاٹ لئے.. انہوں نے ہر طرف آگ لگادی۔ 1760ء تک مرہٹے پاک و ہند کے بڑے حصے پر قبضہ کر چکے تھے۔ ان کے سردار رگوناتھ نے مغلوں کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا۔ پھر لاہور پر قبضہ کرکے اٹک کا علاقہ فتح کر لیا۔ انہوں نے لال قلعہ دہلی کی سونے کی چھت اترواکر اپنے لیے سونے کے سکے بنوائے ۔مرہٹوں کے روپ میں ہندو طاقتور اور مغل کمزور ہوئے۔ (جاری ہے)