عارف علوی تحریک انصاف میں وہ آخری آدمی تھے جن سے کچھ حسن ظن باقی تھا۔ افسوس آخری تجزیے میں وہ بھی محض تحریک انصاف کے رہنما ہی نکلے۔کس بے اعتنائی سے وہ گویا ہوئے اور کس بے نیازی سے چل دیے ۔ قافلہ انقلاب کے بانکوں کی نگاہ ناز یوں تو روز ہی غزل سرا ہوتی ہے ، جناب صدر نے تو ایک ہی لمحے میںبے اعتنائی کا پورا دیوان لکھ کر ثابت کر دیا کہ ’’ بلبل بھی اک ہی بولتا ہوتا ہے گھر کے بیچ‘‘۔ طرز حکومت سے نہیں، ان کے لہجوں سے خوف آتا ہے۔کارکردگی کا اب کیسا سوال کہ امید مر چکی اور خوش فہمی کی گور غریباں کی مٹی ریگزار ہو گئی۔ اقبال سکندر سے کوئی کب تک یہ امید رکھے کہ ان سونگ یارکر سے وکٹ اڑا دے؟اب تو کوئی شکوہ بھی نہیں ہے کہ آزار کی آندھی تھمے اور رنج حیات کھینچنے والوں کو دم لینے کو ایک پل ملے تو کوئی شکوہ کرے۔ہاں ایک خیال ضرور دستک دیتا ہے ، اللہ کے بندو کچھ کر کے دکھانا تمہارے بس کی بات نہیں تو لہجوں میں ایک مصنوعی سی دردمندی ہی پیدا کر لو۔دیکھنے والے کو ڈھارس تو ہو کہ اہل اقتدار کو عوام کا کچھ احساس ہے۔ایک مصنوعی سی دردمندی ، چہرے پر اک جھوٹی سی سنجیدگی؟ ’’ الیس منکم رجل رشید‘‘ کا سوال پرانا ہوا، تازہ سوال یہ ہے اے قافلہ انقلاب کے خوش بختو ! تم میں کیا کوئی اداکار بھی نہیں۔ اور اداکاری بھی کتنی؟ ایک حرف تسلی ، اجلے اور چمکتے چہروں پر پریشانی اور دردمندی کا ایک جھوٹا سا غلاف ۔کیا یہ بھی کوئی کوہ کنی ہے جس کے تصور سے تمہارا زہرہ آب ہو جائے؟ ایک وزیر با تدبیر اپنے اقوال زریں کے سارے ردیف اور قافیے ملا کر غزل سرا ہوئے کہ آٹے کا کوئی بحران موجود ہی نہیں ، محفل ابھی اس اقوال زریں کی بازگشت سے گونج رہی تھی کہ خبر جاری ہوئی وزیر اعلی نے آٹے کے بحران سے نبٹنے کے لیے اجلاس بلا لیا۔حیرت سے آدمی سوچتا ہے بحران نہیںتھا تو اجلاس کیوں ہے اور بحران ہے تو اقوال زریں کا عتاب کیوں تھا۔وہی ملا نصیر الدین والی بات : یہ بلی ہے گوشت کہاں ہے ،یہ گوشت ہے تو بلی کہاں ہے۔ ایک دوسرے وزیر کی بھی سنیے ۔ قوم کے راستے میں گویا جنگل آن پڑے ہیں۔آٹے کا سوال ہوا تومسکرائے ۔مسکرائے تو جلترنگ بج اٹھے ، چلتی ریل جیسے کسی برف زار میں رک جائے ، فرمایا نومبر دسمبر میں لوگ روٹی زیادہ کھاتے ہیں اس لیے آٹے کا بحران پیدا ہو گیا۔یہ بے نیازی بے سبب نہیں۔ دریا کنارے بیٹھے آدمی کو کیا معلوم پیاس کیا ہوتی ہے۔تشنگی کا عذاب وہی جان سکتا ہے جسے ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے کنواں کھودنا پڑے۔خلق خدا مہنگائی کے عذاب سے بے حال ہو چکی ہے لیکن وزراء کرام کی شوخیاں نہیں تھم رہیں۔یہ ایسے چہک رہے ہیں جیسے منجھلے بیٹے کے ولیمے میں آئے ہوں۔عوام کی رگوں سے خوشیاں نکال کر جس اشرافیہ کی پرورش کی جاتی ہے اسے کیا خبر بھوک کیا ہوتی ہے اور آٹا مہنگا ہونا کسے کہتے ہیں۔ یہ تو سوچے سمجھے بغیر بولے چلے جاتے ہیں۔جیسے بچپن میں درسی کتاب میں ریل چلتی تھی۔ چھک چھک چھک چھک ، چھک چھک چھک چھک۔ ایک اور صاحب کے پی کے سے غزل سرا ہوئے : مطلع میں ارشاد کیا دو کی بجائے ایک روٹی کھائیے ، بیچ میں طبع آزمائی کی کہ اچھا آٹا کھانے سے کینسر پیدا ہوتا ہے۔خدا جانے یہ غزل کب مکمل ہو ، آثار مگر یہ ہیں کہ مطلع تک پہنچتے کہیں عالم شوق میں یہ لوگ چارے کے فضائل نہ بیان کرنے لگیں اور یوں لوگوں کو پہلی بار ، جی ہاں معلوم انسانی تاریخ میں پہلی بار انسانی صحت پر چارے کے مفید اثرات کا راز معلوم ہو جائے۔ یہ یقینا میڈیکل سائنس کی دنیا میں عظیم انقلاب ہو گا۔ ایک اور وزیر با تدبیر ہیں۔ کیمروں کے سامنے خون سے بھری بوتل ساتھ رکھ کر فوٹو شوٹ کرایا گیا اور تاثر دیا گیا کہ دیکھو اے اہل وطن ، ہم تمہارے غم میں اتنے پریشان ہیں کہ خون کا عطیہ دے دیا۔ درویشوں کے اس تصرف پر سوشل میڈیا پر اودھم مچا ہے لیکن اہل اقتدار ازرہ مروت بھی بد مزہ ہونے کو تیار نہیں۔سوال یہ نہیں اداکاری کیوں کی گئی، دکھ اس بات کا ہے کہ اداکاری بھی ڈھنگ سے نہیں کی جا سکی۔حسرتوں کا دریائے بے کراں پہلے کیا کم تھا کہ اب اس میں کمزور اداکاری اور ناقص ہدایت کاری کی یہ محرومی بھی شامل کر دی جائے؟ وزرائے کرام کی تر ک تازی کا کمال یہ ہے کہ دن بھر بیٹھ کر ردیف قافیے ملاتے ہیں اور پھر ٹاک شوز اور ٹویٹ کے ذریعے اس فن کا ابلاغ فرما کر داد طلب ہوتے ہیں۔ ریختے کا استاد میر ہے نہ غالب ، یہ دستار تو قافلہ انقلاب کے وزیر با تدبیر کے سر پر ہی جچتی ہے۔غالب کی متاع ہی کیا ہے؟ ایک دیوان؟ یہاں تو ہر شام فاضل وزراء دیوان لکھ مارتے ہیں۔شام ڈھلے ان کے ارشادات دیکھیے ، ان کا طرز گفتگو دیکھیے ، ان کے الفاظ کے چنائو پر غور کیجیے ، ان کی فکری استعداد پر نظر ڈالیے اور پھر کسی گوشے میں بیٹھ کر سر پیٹ لیجیے۔زوال کا آسیب تو بستی پر اترا ہوا تھا لیکن زوال کو یہ کمال پہلے کبھی نہ تھا۔کوئی دکھ سا دکھ ہے؟ آٹے کے بحران سے پریشان حال اہل وطن کے لیے تازہ خبر یہ ہے کہ گھریلو استعمال کی گیس214 فیصد تک مہنگی کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اورسمری تیار ہو چکی ہے۔گھریلو صارفین کے لیے میٹر کے کرائے میں 300 فیصد اضافہ تجویز کر دیا ہے۔برہان تازہ یہ ہے کہ سکون اب قبرہی میں ملے گا۔ عارف علوی کس ادا سے گویا ہوئے؟شگوفوں کی بستی میں کوئی پھول گویا نئی کونپل نکالے دعوت نظارہ دے رہا ہو۔ان میں تو پہلے یہ بے ادائیاں نہ تھیں ۔ اقتدار کا مگر کمال یہی ہے یہ آدمی کو بدلتا نہیں بے نقاب کر دیتا ہے۔جناب عارف علوی کو کیا معلوم آٹے کی قیمت کیا ہے۔ایوان صدرمیں جلوہ افروز ہو کر بھی آدمی آٹے دال کے بھائو میں الجھا رہے تو تبدیلی کیسے آئے گی؟ویسے بھی عارف علوی روٹی نہیں کھاتے ،وہ ڈبل روٹی کھاتے ہیں۔عمر کے اس حصے میں گندم کی روٹی دانتوں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔