مکرمی!چار ستمبر 2019ء کو روزنامہ 92نیوز کے ادارتی صفحے پر جناب خاور نعیم ہاشمی نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ساتھ اپنے سکول کے زمانے کی یادوں کا ذکر کیا ہے۔ جو خاصا مبالغہ آمیز ہے اور بیشتر زیب داستاں ہے۔ یہ تو ممکن ہے کو ئی سکول کا طالب علم ایک دومرتبہ مولانا کے کمرے میں گھس گیا ہو اور انہوں نے ازراہِ شفقت ایک روپے والا سکہ اسے تھما دیا ہو‘ مگر یہ ’’واردات کافی عرصے تک چلی‘‘ درست نہیں۔ اسی طرح ’’دفع ہو جائو‘‘ مولانا کا طرزِ کلام نہ تھا۔ یہ ممکن نہ تھا کہ سکول کا ایک لڑکا وقت بے وقت بلاروک ٹوک مولانا کے کمرے میں گھس جاتا ہو اور دائیں بائیں کمروں میں موجود‘ دفتر جماعت کے لوگ اسے نہ روکتے ہو۔ مولانا مودودی کے اوقات کار بہت منظم تھے۔ ملاقاتی وقت لے کر ہی مولانا سے ملتے تھے اور اگر کوئی شخص بلا وقت لیے ‘ ملنا چاہتا تو دفتر جماعت کی وساطت ہی سے مل سکتا تھا۔ یہ پوری کہانی مولانا کے مزاج سے لگا نہیں کھاتی۔ اسی طرح عنایت حسین بھٹی صاحب اگر مولانا سے ملنا چاہتے تھے تو وہ خاور نعیم صاحب کا واسطہ پکڑنے کے بجائے براہ راست فون کر کے وقت لے سکتے تھے۔ اس ضمن میں مبینہ طور پر مولانا کا یہ کہنا کہ (بھٹی صاحب کو) ’’رات کو لائیے گا‘‘ ایک مضحکہ خیز روایت ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ مولانا عصر کے بعد کھلے عام باہر لان میں بیٹھا کرتے تھے۔ جہاں کسی کوبھی ملنے والے کے لئے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ ان ملاقاتیوں میں ہر عمر‘ ہر طبقے‘ ہر پیشے اور ہر مکتب فکرکے لوگ موجود ہوتے اور وہ ہر قسم کے سوال پوچھ سکتے تھے۔ چونکہ یہ بات ہر خاص و عام کو معلوم تھی‘ اس کے لئے مولانا مودودی سے ملاقات کے لئے ان برخوردار کی ایسی’ ’سفارش‘ ‘کا سہارا لینا اپنی جگہ ناقابل فہم ہے۔(ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘ لاہور)