میٹرک کے نتائج آئے۔ داخلے کے انتظامات میں اضافہ کیا گیا اور آن لائن فیس کی شرط رکھ دی گئی۔ کئی بینکوں نے یہ فیس وصول کرنے سے معذرت کر لی۔بچے اور ان کے والدین طویل قطاروں میں لگے رہے۔ انٹر کے نتائج آنے کے بعد بدانتظامی مزید ابتر ہو گئی۔ ہدایت کی گئی کہ داخلے آن لائن ہوں گے۔کالجز نے داخلے کے جو اشتہار شائع کرائے ان پر بھی آن لائن داخلے کا لنک دیا گیا تھا۔اکثر طلبا نے شکایت کی کہ لنک اوپن نہیں ہوتا۔کالج انتظامیہ سے رابطہ کریں تو وہ کہتے ہیں صرف آن لائن ہی درخواست دی جا سکتی ہے۔ ایک بچی پری میڈیکل کے بعد نرسنگ میں داخلہ لینا چاہتی ہے۔ اس نے حکومت کے فراہم کردہ داخلہ لنک پر درخواست دینے کی کوشش کی۔ کئی دن کے بعد لنک اوپن ہوا‘ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو آن لائن فارم دیا گیا ہے اس کو بھرنے کے بعد Submitکا آپشن کام نہیں کر رہا۔ یہ اس نظام تعلیم کے ایک حصے کی جھلک ہے جس سے ہم سب کو واسطہ پڑتا ہے‘ یہ پریشانی وزیر سے لے کر چپڑاسی کے بچوں تک کے حصے میں آتی ہے لیکن مسئلہ موجود رہتا ہے۔ بی اے کے بعد اخبار میں نوکری اس وجہ سے مل گئی کہ انگریزی سے اردو ترجمہ اچھا کر لیتا تھا۔ ایثار رانا‘ نوید چودھری اور قدرت اللہ چودھری نے اس صلاحیت کی حوصلہ افزائی کی۔بعدازاں فاروق فیصل خان اور پھر طاہر مجید جیسے ایڈیٹر ملے۔سہیل دانش صاحب نے مختلف بین الاقوامی اخبارات کے اداریے اور ان کے اقتباس ترجمہ کر کے شائع کرنے کا کام سونپا۔بہرحال ایک روز ایم اے کرنے کا سوچا۔ داخلہ فیس کا انتظام کرتے کرتے آخری دن آ پہنچا۔داخلہ فارم کی تصدیق کرانا لازمی ہوتا ہے۔ طویل قطار میں صبح سے لگا اور بارہ بجے داخلہ فیس جمع ہوئی۔ ان دنوں خصوصی برانچوں میں ہی فیس جمع کرائی جا سکتی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس بینک کے سامنے لاہور میوزیم تھا جس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انجم رحمانی سے اچھی جان پہچان تھی۔ سوچ رکھا تھا کہ فیس جمع کرانے کے بعد سڑک عبور کر کے ڈاکٹر انجم رحمانی کے پاس چلا جائوں گا اور فارم کی تصدیق کروا کر جمع کروا دوں گا۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہوا ڈائریکٹر صاحب چھٹی پر ہیں۔ فون پر رابطہ ممکن نہ تھا نہ کوئی اور گزٹڈ افسر دستیاب کہ تصدیق کروا لیتا۔ ان دنوں میں ادبی و تحقیقی جریدے ’’نوادر‘‘ کا مدیر بھی تھا۔اس جریدے میں اردو کے نامور محققین ‘ اساتذہ اور تخلیق کاروں کی تحریریں شائع ہوتیں۔ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں شعبہ اردو کے سربراہ کا دفتر تھا۔ ان کی چند تحریریں ہم شائع کر چکے تھے۔بالمشافہ ملاقات نہ تھی تاہم نوادر کا تعارف کروا کر فارم تصدیق کی درخواست کی۔ موصوف نے کسی حوالے سے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ میں نے بتایا کہ فارم جمع ہونے کی آج آخری تاریخ ہے‘ چند گھنٹوں بعد فارم وصولی بند کر دی جائے گی‘ اصل اسناد میرے پاس ہیں وہ دیکھ لیں۔میرے دماغ میں ان کا وہ بے رحم انداز اور چہرہ نقش ہو چکا ہے‘ جب انہوں نے سر نفی میں ہلایا۔ میں داخلہ فارم لے کر یونیورسٹی کے ایک کلرک کے پاس گیا اور اسے اپنی مشکل بتائی۔ اس نے مجھے یونیورسٹی لائبریرین محمد شریف صاحب سے ملنے کو کہا۔میں ان کا دفتر پوچھتا کچھ دیر میں پہنچ گیا۔ سفید ریش محمد شریف مہربان مسکراہٹ سے میری مشکل سنتے رہے۔دراز سے اپنی مہر نکال کر فارم پر نقش کی۔ پھر پوچھا کیا کرتے ہو۔ میں نے بتایا صحافی ہوں۔ کہنے لگے ایسے کتنے ہی بچے ہیں جو حکومتوں کے غیر ضروری ضابطوں اور شرائط کے باعث تعلیمی مشکلات کا شکار ہیں۔ آپ صحافی ہیں غریب کے بچے کو تعلیم سے دور رکھنے والی ان رکاوٹوں پر آواز اٹھا سکتے ہو۔ بی اے میں سکینڈ ڈویژن آئی تو میں کسی حد تک مطمئن تھا کہ صوبائی سطح کا کھلاڑی ہونے پر مجھے پنجاب یونیورسٹی میں سپورٹس سیٹ پر داخلہ مل جائے گا۔ لیفٹیننٹ جنرل(ر) محمد صفدر وی سی تھے۔ جانے ان کے دماغ میں کیا سمایا کہ اس سال کھیلوں کی سیٹوں پر داخلہ بند کر دیا۔ میرا داخلہ نہ ہو سکا۔ پھر ایک وقت آیا جب میں نے اپنا خواب پورا کیا۔ پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں گزرا وقت یادگار ہو گیا۔ رکاوٹیں ہیں، ہر قدم پر متوسط طبقے کے لئے رکاوٹیں۔ پاکستان‘بھارت،سری لنکا اور بنگلہ دیش وہ ممالک ہیں جہاں والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے خود کو ذبح کر رہے ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ ناانصافی کے خلاف حکمران اشرافیہ کے تسلط‘ غربت سے نجات اور اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لئے ان کے بچے اعلیٰ اور معیاری تعلیم حاصل کریں۔ان کے خوابوں کا فائدہ نجی اداروں نے اٹھایا۔سرکاری سکولوں کو جان بوجھ کر بھوت بنگلہ بنا دیا گیا۔ کشادہ عمارات اور وسیع گرائونڈز کے باوجود چند مرلے کے گھروں میں قائم نجی سکول کامیاب ہو گئے‘ سرکاری سکولوں میں لیبارٹریز نہیں‘ لائبریریاں نہیں‘ اساتذہ کے مسائل ہیں۔ لیٹرین نہیں‘ پینے کا پانی نہیں پھر بھی تنور والے کا بیٹا بورڈ ٹاپ کر جاتا ہے‘ رکشے والے کی بیٹی پہلی پوزیشن لے جاتی ہے۔ تحریک انصاف کو مینڈیٹ تبدیلی کے لئے ملا۔ اس تبدیلی کی نوعیت صرف سیاسی نہیں‘ انتظامی بھی ہے۔ لوگ دفتری طریقہ کار سے تنگ ہیں‘ بینکوں میں قطاریں بنا کر بل جمع کرانے سے عاجز آ چکے ہیں‘ پنشن کے حصول کے لئے خودکشیاں ہو چکی ہیں‘ سڑکوں سے اربن ٹرانسپورٹ غائب ہونے سے غریب کا نقصان ہوا ہے‘جدت ضرور لائیں لیکن پہلے ہوم ورک کر لیں۔ اگر سرکاری اداروں کے پاس آن لائن درخواستیں وصول کرنے کا قابل بھروسہ نظام نہیں تو پھر لاکھوں طالب علموں کے صبر کا امتحان کیوں لیا جا رہا ہے۔ نااہلی اور نالائقی ہے یا پھر خواہ مخواہ کارکردگی دکھانے کی کوشش۔اس معاملے کی تحقیقات آپ بھلے کریں نا کریں‘بس رکاوٹیں دور کر دیں۔