معزز قارئین! یکم جون کو، سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب ناصر اُلملک نے نگران وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھایا اور پرسوں (5 جون کو ) اُن کی چھ رُکنی وفاقی کابینہ نے بھی حلف اُٹھالیا، جِس میں دو خواتین بھی شامل ہیں ۔  ڈاکٹر شمشاد اختر اور محترمہ روشن خورشید بھروچہ ۔ جناب عبداللہ حسین ہارون کو وزارتِ خارجہ اوروزارتِ قومی سلامتی کے قلمدان سپرد کئے گئے ہیں ۔ اُن کے پاس وزارتِ دفاع اوردفاعی پیداوار کا اضافیؔ چارج بھی ہوگا۔ ڈاکٹر شمشاد اختر کو وزارتِ خزانہ، وزارتِ شماریات اور وزارتِ منصوبہ بندی کے قلمدان سپرد کئے گئے ہیں اور اُن کے پاس وزارتِ تجارت ، وزارتِ صنعت و پیداوار کا اضافی ؔچارج ہوگا۔

جنابِ اعظم خان کو وزارتِ داخلہ ، وزارتِ کیڈاور وزارتِ نارکوٹکس کے قلمدان سپرد کئے گئے ہیں اور اُن کے پاس وزارتِ صوبائی رابطہ کا اضافیؔ چارج ہوگا۔ بیرسٹر سیّد علی ظفر ؔکو وزارتِ قانون انصاف اور وزارتِ اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کے قلمدان سپرد کئے گئے ہیں ۔ (اُن کے پاس کسی وزارت کا اضافی چارج نہیں ہے ) ۔ محترمہ روشن خورشید بھروچہ کو وزارتِ اِنسانی حقوق ، وزارتِ امور کشمیر ، آزاد کشمیر و  بلتستان کے قلمدان سپرد کئے گئے ہیں ( اُن کے پاس بھی کسی وزارت کا اضافی چارج نہیں ہے ) جناب محمد یوسف کو وزارتِ تعلیم کا قلمدان سپرد کِیا گیا ہے لیکن، اور اُن کے پاس وزارتِ نیشنل ہیلتھ سروسز اور وزارتِ مذہبی امور کا اضافی چارج ہوگا۔

گویا جب بھی نگران وزیراعظم اپنی کابینہ میں توسیع کریں گے تو جناب عبداللہ حسین ہارون، ڈاکٹر شمشاد اختر، جناب اعظم خان اور جناب محمد یوسف کے پاس جن وزارتوں کے اضافی چارج ہیں ، اُن کے قلمدان نئے وزراء کو سونپ دئیے جائیں گے ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں چھ کے چھ وزراء کا اُن کے پس منظر کے ساتھ اُن کا تعارف کرایا جا چکا ہے،  ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن، مجھے تو، ’’وزارتِ خارجہ ‘‘اور ’’وزارتِ قومی سلامتی ‘‘ کے وزیر جناب عبداللہ ہارون اور ’’وزارتِ قانون و انصاف ‘‘ اور ’’وزارتِ اطلاعات ونشریات ‘‘ کے وزیر بیرسٹر سیّد علی ظفر سے دلچسپی ہے۔ اِس لئے کہ ، 2013ء کے عام انتخابات کے بعد تیسری بار وزیراعظم منتخب ہو کر میاں نواز شریف نے وزارتِ خارجہ ، وزارتِ قومی سلامتی، وزارتِ قانون و انصاف اور وزارتِ اطلاعات و نشریات کے حوالے سے انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کِیا۔ 

2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں وفاق اور پنجاب میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد ، پاکستان مسلم لیگ (ن ) کے صدر کی حیثیت سے ، قائداعظمؒ کی کُرسی پر بیٹھنے والے ، میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ ’’عوام نے مجھے اور میری پارٹی کو ، بھارت سے تجارت اور دوستی کے لئے کامیاب بنایا ہے!‘‘۔ اِسی لئے موصوف نے ۔نااہل ہونے تک اپنے کسی بھی ’’سنگی ساتھی ‘‘ کو وزیر خارجہ مقرر نہیں کِیا تھا کہ ، کہیں اُسے کسی بین اُلاقوامی "Forum" پر بھارت کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد کی حمایت ہی نہ کرنا پڑے؟ ۔ اِسی طرح نااہل وزیراعظم کے دَورمیں اور اُس کے بعد "His Master's Voice" وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دَور میں ، کھلے بندوں قانون اور انصاف کا مذاق اُڑایا گیا اور میڈیا کے محب وطن قائدین اور کارکُنان کی بھی حوصلہ شکنی کی گئی۔ 

مَیں جانتا ہُوں کہ ایک طرف نااہل وزیراعظم کے برادرِ خُورد میاں شہباز شریف کی صدارت میں مسلم لیگ (ن) اور اُس کی اتحادی جماعتوں ( خاص طور پر فضل اُلرحمن صاحب کی جمعیت عُلماء اسلام (ف ) کے مقررین ) پاک فوج اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف زبان درازی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے لیکن، مجھے یقین ہے کہ ’’ 60 دِن کے مہمان وزیراعظم کی حیثیت سے بھی جسٹس (ر) ناصراُلملک اور اُن کی کابینہ کے ارکان آزادانہ اور پُر امن انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے پورا تعاون کریں گے ، خواہ اُنہیں پاک فوج اور رینجرز سے امداد ہی کیو ںنہ لینا پڑے؟‘‘۔ 

معزز قارئین! فی الحال ۔ وزیر خارجہ و قومی سلامتی جناب عبداللہ حسین اور وزیر قانون و انصاف ، اطلاعات و نشریات بیرسٹر سیّد علی ظفر تو حرکت میں آگئے ہیں ۔ حرکت ہی میں برکت ہوتی ہے ۔ دوسرے وزراء بھی حرکت میں آ ہی جائیں گے لیکن، میرا وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر اُلملک کو مفت مشورہ ہے کہ وہ اپنی "Normal Cabinet" پر مکمل اعتماد کریں اور اُس کے ہوتے ہُوئے (نااہل وزیراعظم ) نواز شریف اور اُن سے پہلے صدر زرداری اور صدر جنرل پرویز مشرف کی طرح اپنی "Kitchen Cabinet" بنانے کا شغل نہ کریں!۔ 

سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے نگران وزیراعظم جانتے ہی ہوں گے کہ "Kitchen Cabinet" کی بدعت قدیم بھارت کے مہاراجا بِکرم آدِتّیہ المعروف مہاراجا بِکرما جیت ( جِس کے نام سے بکرمی سال رائج ہے ) نے شروع کی اور اُس کی نقل میں مُغل بادشاہ اکبر نے اُس کی پیروی کی ۔ اُس دَور میں ’’کچن کیبنٹ‘‘ کو ’’ نو رتن ‘‘ (جواہر) کہا جاتا تھا لیکن ، اُس دَور میں ’’ نو رتنوں‘‘ کا باقاعدہ "Notification" ہوتا تھا اور پوری سلطنت کے عوام و خواص کو ہر ایک ’’رتن ‘‘ کی صلاحیتوں کا علم ہوتا تھا۔شاید اُن کی دیکھا دیکھی سلطنت برطانیہ میں بھی "Blue Eyed Boys" کا تصور پیدا ہُوا۔ متحدہ پنجاب میں بہت مدّت بعد (مرحومہ ) ملکۂ ترنم نور جہاں نے ایک پنجابی فلم میں گایا تھا کہ …

سُن وے! بلوری اَکھ والیا!

اَساں دِل ،تیرے نال لا لیا؟

فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی کی"Normal Cabinet"کے ساتھ ساتھ اُس کے چہیتے غُلام ۔ ملک ایاز ؔ ۔ کے علاوہ آٹھ "Blue Eyed Boys" بھی تھے لیکن’’ نارمل کیبنٹ‘‘ کے ہر رُکن کو علم تھا کہ ’’ سوہنیا زُلفاں والا ‘‘ایاز ملک ہی ۔ سلطان محمود غزنوی کا چہیتا غلام ہے !‘‘۔ علاّمہ اقبالؒ نے نہ جانے کِس موڈ میں اپنے دَور کے کسی ’’محمود و ایاز ‘‘کے تعلقات کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …

نہ وہ عشق میں ،رہیں گرمیاںنہ وہ حُسن میں ، رہیں شُوخیاں

نہ وہ غزنوی ؔمیں ، تڑپ رہی نہ وہ خم ہے ، زُلفِ ایاز میں 

20 ویں صدی کی بین الاقوامی ادب کی ایک دیو قامت شخصیت خلیل جبران ؔنے اپنی تخلیق "The Mad Man" (پاگل ) میں ’’ زندگی اور عورت‘‘ کے عنوان سے ایک واقعہ بیان کِیا ہے کہ ’’کسی "Business Club" میں ایک دوست نے ، دوسرے دوست سے پوچھا کہ ’’ یار! ۔ کل تُم جس خاتون سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے اور وہ تُم سے بار بار لپٹ رہی تھی ۔وہ کون تھی؟‘‘۔ دوسرے دوست نے کہا کہ ’’وہ میری "Cousin" تھی !‘‘۔پہلا دوست مُسکرایا اور بولا کہ ’’ دو ماہ پہلے وہ میری "Cousin" تھی!‘‘۔ معزز قارئین!۔ جب مَیں نے ۔ آپ نے ۔ اور ہم سب نے ۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی ’’ کچن کیبنٹ‘‘ کے کئی ارکان کو نواز شریف ( اور 9 مہینے تک شاہد خاقان عباسی ) کی ’’ کچن کیبنٹ‘‘ میں شامل دیکھا تو’’ چشم فلک‘‘ کو بھی کتنی شرمندگی ہُوئی ہوگی ؟۔ 

اِسی لئے مَیں نے بصد خلوص نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر اُلملک کو مفت مشورہ دِیا ہے کہ ’’ آپ اپنی ’’ نارمل کیبنٹ‘‘ پر ہی اعتماد کریں۔ مخلص اور با اعتماد چھ لوگ بھی کافی ہوتے ہیں ‘‘۔ اِس لئے مَیں تو ، اِسے نگران وزیراعظم صاحب کا "Sixer" ( چھ رنز بنانے والی ضرب یا ) ’’ چھکا‘‘ ہی کہوں گا۔ اگر آپ نے اپنی کابینہ میں چھ اور کھلاڑی شامل کر لئے تو، مَیں تو کیا آپ کے بہت سے چاہنے والے اُسے ’’دو چھکے ‘‘ (Two Sixers)  ہی کہیں گے۔ کیوں نہ مَیں اِس موضوع پر ، آپ کی خدمت میں اُستاد حیدر علی آتشؔ کا یہ شعر پیش کروں جسے سُن کر آپ کے ’’نامعلوم حریفوں ‘‘ کے چھکے چھوٹ جائیں کہ …

تختہ ٔ  نرد ِ عشق ، دِل کھیلا جو حُسن یار سے!

چُھٹ گئے ، ایسے میرے چھکے ؔ، کہ ششدر ہوگیا!

"By The Way"۔ پاکستان کے دوست ’’دُبئی ‘‘ کے امیر شیخ محمد بن راشد المکتوم نے جنوری 2016ء میں اپنی کابینہ میں ’’وزیر مملکت برائے مُسرّت ‘‘اور ’’وزیر مملکت برائے برداشت‘‘ کو بھی شامل کرلِیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وزیراعظم ناصر اُلملک امیر دُبئی ؔکی سوچ کو پروان چڑھائیں گے یا نہیں؟۔