پاکستان کی یکجہتی پر حملہ کی ایک نئی صورت یہ طے کی گئی ہے کہ ہندو کے قدیم اتحادیوں کو اپنا تعصب پھیلانے کے لیے پنجاب میں مواقع دیئے جائیں۔ مینار پاکستان کے سبزہ زار میں جو شخص لاہوریوں کو برا بھلا کہہ رہا تھا وہ اور اس جیسے کئی لوگ اس منصوبے کا حصہ ہیں۔ ریکارڈ نکلوا کر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ جب بھی پنجاب یا سندھ گئے صرف نفرت آمیز گفتگو کی۔ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کے لیے ان کی زبان سے ایک لفظ نہیں ادا ہوا۔ آخر کیوں؟ پی ڈی ایم میاں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کا برین چائلڈ ہے۔ پی پی کو برائے وزن جمہوریت اس کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مولانا اور میاں نوازشریف عمران خان اور افواج پاکستان کی دشمنی میں اس سطح پر جا پہنچے ہیں جہاں انہیں ریاست کے مفاد‘ قومی یکجہتی اور ملکی سلامتی سے کوئی غرض نہیں۔ یہ اتحاد چونکہ ریاست کو سیاسی دشمن کی مدد کرنے والی قوت سمجھنے والوں نے تشکیل دیا ہے اس لیے ہر ریاست دشمن فکر والا اس اتحاد کا معتبر اور معزز رکن ہے۔ پی ڈی ایم کے سٹیج سے مسلسل عجیب و غریب مظاہر سامنے آئے ہیں۔ یہی اچکزئی صاحب ہیں جنہوں نے کراچی میں اردو زبان کے حوالے سے متنازع گفتگو کی‘ پھر کوئٹہ میں انس نورانی نے آزاد بلوچستان کی بات کر کے اسے زبان کا پھسلنا کہہ دیا۔ اب لاہور میں محمود اچکزئی نے لاہوریو‘ لاہوریو کہہ کر پنجاب کو ہندوئوں‘ سکھوں اور انگریزوں کا حامی ہونے کا طعنہ دیا ہے۔ اسی سٹیج سے مریم نواز اور وفاقی جماعت کہلوانے والی پیپلز پارٹی کا نوجوان چیئرمین خاموشی سے وفاق دشمن خیالات پر خاموش بیٹھے رہے ۔ اس جلسے کا جو حال ہوا وہ پی ڈی ایم والے خود بہتر جانتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے لاہور کے کھوکھر برادران کے سوا تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی کارکردگی پر غصے کا اظہار کیا ہے۔ نواز شریف نے نام لے لے کر لندن میں کہا کہ غزالی بٹ‘ پرویز ملک‘ ملک ریاض‘ سعد رفیق وغیرہ پر برہمی کا اظہار کیا کہ وہ لوگوں کو کیوں نہیں لا سکے۔ نوازشریف کو بیماری اور وطن سے دوری کی طاقت میں یہ دھچکا پہنچا ہے کہ ان کا شہر لاہور اب ان کا نہیں رہا۔ نوازشریف اطمینان رکھیں اگر پی ڈی ایم کے سٹیج سے پنجابیوں کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور قومی بیانئے کی جگہ ان کا بیانیہ نشر ہوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ن لیگ بھی لاہور میںپانچ سو ووٹوں والی جماعت بن کر رہ جائے گی۔ پنجاب اور اہل پنجاب سے نفرت رکھنے والوں نے مسلمان پنجابیوں کی ایک کمزوری سے بہت فائدہ اٹھایا۔ پہلے لاہور کے ہندو راجپوتوں اور پھر سکھ حکمران رنجیت سنگھ کے متعلق تاریخ کو زیادہ سے زیادہ مذہبی بنیاد پر عام کیا گیا۔پاکستان نیا نیا بنا تھا ، سکھوں کے ہاتھوں مسلمان مہاجرین کے قتلام نے اس روش کو عام ہونے میں فطری مدد دی ۔ نقوش کے لاہور نمبر میں مقالہ نگار لکھتے ہیں: مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں بہت سے مقبرے اور مسجدیں منہدم ہو گئیں۔ مہاراجہ مگر مزار داتا گنج بخشؒ پر‘ عرس کے دنوں‘ جو ہر سال 20صفر المظفر کو ہوتا ہے‘ ایک ہزار روپیہ نقد بطور نذر بھیجا کرتا تھا۔ اپنے طویل عہد اقتدار میں اس نے چند بار اس مزار کی مرمت بھی کرائی۔1895ء میں مہارانی چند کور(رانی مہارجہ کھڑک سنگھ)نے احاطہ مزار کے اندر ایک شاندار دالان اپنے صرف سے تیار کرایا۔ اہل لاہور پر مسلم حملہ آوروں کی فکری گرفت بڑی مضبوط ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر شاہراہوں‘ محلوں اور گلیوں کے نام شاہان غزنوی ‘ غوری‘ لودھی‘ تغلق اور مغلوں کے یا ان کے امراء کے نام پر ہیں‘ اسی طرح چند سکھ سرداروں کی حویلیوں اور دو چار ہندو امراء کے سوا ہزاروں برس سے اسی سرزمین پر رہنے والوں کے نام و آثار مٹا دیے گئے۔ ایک مخصوص نقطۂ نظر سے تاریخ کو توڑ مروڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ لاہور اور اہل لاہور اس قابل نہیں کہ ان کا ذکر بہادروں اور سخیوں کے طور پر کیا جائے۔ یہ سوچ اس حد تک پختہ ہو چکی ہے کہ قابل فخر فرزند بھگت سنگھ سندھوکو لاہور میں جس مقام پر انگریز نے پھانسی دی اس کا نام شادمان مارکیٹ تو ہو سکتا ہے بھگت سنگھ چوک نہیں۔ پنجاب کے لوگ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی اپنی شرافت‘ وضع داری اور مروت میں غیر مقامی نسلوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ استحصال اس قدر گہرا ہے کہ افغان و مغل حکمرانوں کے ادوار میں بھی جو مقامی مورخ قابل قبول تھے ان کی تصنیفات مفقود ہوتی گئیں۔ عہد عالمگیر کے مورخ منشی سبحان رائے بٹالوی پھر تاریخ محمد شاہی کے مصنف خوشحال چند سامیؔ۔ کرنل بھولا ناتھ کی پنجابی زبان میں لکھی تاریخ لاہور الماریوں ، کتب خانوں اور ذاتی لائبریریوں سے غائب ہو چکی ہیں ۔ ایک صاحب پوچھ رہے تھے کہ پنجاب نے کبھی کوئی حریت پسند پیدا کیا؟ اب انہوں نے بات مسلم یا غیر مسلم کی نہیں صرف پنجابی کی ہے تو انہیں بتانا پڑا کہ جواب میں بھی مسلم و غیر مسلم کی تمیز نہیں ہو گی۔ جناب اقبال قیصر کے مطابق پورس نے مقدونیہ کے سکندر کو روکا‘ شہاب الدین غوری کو کھوکھروں نے قتل کیا اور اس کی لاش افغانستان نہ جانے دی۔ بابر کی فوج کشی کے خلاف بابا گورونانک نے آواز اٹھائی‘ اچکزئیوں کو گوجرانوالہ کے ہری سنگھ تلوا نے سبق سکھایا‘ اچکزئی خواتین آج بھی بچوں کو ڈراتی ہیں’’ہریا راغلے‘‘ انگریز کو پنجاب پر قبضے کے لئے 8جنگیں لڑنا پڑیں۔ پہلی جنگ سبھرائو‘ دوسری مدکے‘ علی وال‘ فیروز پور‘ ملتان ‘ چیلیانوالہ گجرات اور رام نگر گوجرانوالہ‘ 1857ء میں لاہور اور مری میں مقامی فوجیوں نے انگریز کے خلاف بغاوت کی۔ انگریز جنرل برکلے پنجابی حریت پسندوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ (جاری)