شاعر نے تو کہا تھا کہ ع کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بات بنانے کی اپنے تئیں ایک کامیاب کوشش کی۔ یہ الگ بات کہ اس پر ایک اور قہقہہ بلند ہوا۔ جنرل اسمبلی کے کئی روزہ سالانہ اجلاس کے موقع پر ہونے والے اجلاسوں میں بالعموم ایک سنجیدہ اور بسااوقات ایک رنجیدہ رنجیدہ سا ماحول ہوتا ہے۔ خاص طورپر اس وقت جب تیسری دنیا کی مظلوم اقوام اپنے اوپر دوسری قوموں بالخصوص سپر پاور امریکہ کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم اور ناانصافی کی المناک داستانیں بیان کرتی ہیں۔ منگل کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے کلیدی خطاب کے آغاز میں ہی کہا کہ میں نے گزشتہ دو برس کے دوران حسن انتظام سے امریکی عوام کو وہ کچھ دیا جو اس سے پہلے کوئی امریکی صدر نہیں دے سکا۔ اس پر جنرل اسمبلی میں قہقہہ بلند ہوا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اس قہقہے کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ وائرل بھی کر دیا۔ بدھ کے روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی قہقہے کی جو توضیح نیویارک میں پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب میں پیش کی وہ ایک اور قہقہے کو جنم دے گئی۔ انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں لوگ مجھ پر نہیں ہنسے بلکہ میرے ساتھ مل کر ہنسے۔ خوشگوار موڈ اور ماحول کے لیے ہنسنا ضروری ہے۔ تفنن برطرف جنرل اسمبلی کی حیثیت ایک قہقہے سے زیادہ نہیں۔ یہ ایک عالمی ڈبیٹنگ کلب ہے جہاں لوگ اپنا اپنا غم و غصہ دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔ یہ اسمبلی قراردادیں تو منظور کرسکتی ہے مگر ان کی تنفیذ نہیں کروا سکتی۔ دھواں دھار خطابات ہوئے جن میں عالمی رہنمائوں نے اپنا اپنا عالمی منظر نامہ بیان کیا اور اپنے علاقائی و ملکی احوال بیان کئے، قصہ درد بھی سنایا کہ مجبور تھے یہ لوگ، مگر ہوا وہی جو یو این نہیں بلکہ یو ایس اے چاہتا تھا۔ یوں ہر برس مجبور قومیں اقبال کا سنایا ہوا سبق سیکھ کرتو جاتی ہیں مگر کسی منصوبہ بندی کے ساتھ درس اقبال کو بروئے کار لانے کا کوئی اہتمام یا انتظام نہیں کرتیں۔ مرشد اقبال نے فرمایا تھا عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد بڑے بڑے ملکی سربراہوں سے لے کر مشہور انقلابیوں نے بھی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ دسمبر 1988ء میں یاسر عرفات کے خطاب کے لیے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے، ان کا خطاب ایوان اقوام جنیوا سوئٹزرلینڈ میں ہوا اور انہوں نے اس میں ایک دھواں دھار تقریر کی۔ اس وقت تک انقلابی یاسر عرفات ایک پرامن لیڈر بن چکا تھا۔ پھر اوسلو معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کو بھی ربع صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے مگر فلسطین میں حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں۔ درجنوں معاہدے ہوئے۔ اسرائیل نے اس وقت تک ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے ڈھیر لگا دیئے ہیں۔ وہ آئے روز غزہ پر ٹینکوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے چڑھ دوڑتا ہے۔جہاں چاہتا ہے وہاں نئی بستیاں آباد کرلیتا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کو ایک آزاد او رخودمختار ملک کی حیثیت دینے کے معاہدے پر بھی دستخط کئے تھے مگر وہ پیچھے ہٹنے کے بجائے روز آگے بڑھتا جاتا ہے۔ اس سے پہلے جمی کارٹر اور باراک اوباما جیسے امریکی صدور نے کم از کم زبانی طور پر سہی فلسطینی عوام کی آزادی و خودمختاری کو تسلیم تو کیا، مگر جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں برسراقتدار آئے ہیں، وہ فلسطینیوں کے زخموں پر روز نمک چھڑکتے ہیں اور اسرائیل کی ہمنوائی و دلداری میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور اس پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے۔ جنوبی افریقہ کے انتہائی محبوب اور قابل احترام رہنما نیلسن منڈیلا کو گورے استعمار نے 27 برس پس دیوار زنداں قیدوبند کی صعوبتوں میں جکڑے رکھا۔ اس دوران ان کی افریقین نیشنل کانگریس کمزور ہونے کے بجائے اور مضبوط ہوگئی۔ افریقی عوام کے دلوں میں آزادی کی لو مدھم پڑنے کی بجائے شعلہ جوالہ بن گئی۔ فروری 1999ء میں سائوتھ افریقہ کے گورے صدر ڈی گلبرگ نے انہیں رہا کردیا۔ یو این کی دعوت پر 22 جون 1990ء کو منڈیلا جب جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو یو این کی بلڈنگ کے باہر ایک جم غفیر نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ مجمع میں ان کے افریقی، امریکی اور عالمی مداحوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ جب نیلسن منڈیلا اجلاس سے خطاب کرنے ہال میں پہنچے تو شرکاء نے ان کی طویل جدوجہد آزادی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کھڑے ہو کر ان کا خیر مقدم کیا اور تادیر تالیاں بجائیں۔ اس موقع پر نیلسن منڈیلا نے ایک غضبناک انقلابی قائد کی طرح نہیں بلکہ ایک مدبر اور مفکر سیاسی رہنما کی حیثیت سے خطاب کیا اور آزادی و خودمختاری کی قدروقیمت واضح کی اور کہا کہ Enough is Enough۔ اب کسی قوم کو طاقت کے بل بوتے پر کوئی غلام نہیں بنا سکتا۔ 1994ء میں نیلسن منڈیلا افریقہ کے صدر منتخب ہو گئے اور 1999ء تک وہ برسراقتدار رہے۔ یوں تو اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر بے شمار موضوعات ہیں مگر مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل یا اس کی جنرل اسمبلی نے کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا، سوائے چند قراردادیں پاس کرنے یا پھر ہمدردی کے چند بول ادا کرنے کے۔ کشمیر میں گزشتہ بیس برس سے ہندوستان انسانی حقوق کی پامالی کر رہا ہے اور نہتے کشمیریوں پر سات لاکھ فوج لے کر چڑھ دوڑا ہے۔ ظالم بھارت کا ہاتھ روکنے کے لیے وہاں یو این نے اپنی کوئی امن فوج نہیں بھیجی۔ آج بھارت ایک لاکھ سے اوپر کشمیریوں کو شہیدکر چکا ہے ۔ 14 جون 2018ء کو پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے امن نے کشمیر کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔ یہ رپورٹ یقینا پاکستان کے موقف کو تقویت پہنچانے کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کرتی ہے۔ منجھے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یقینا اس رپورٹ سے استفادہ کریں گے اور مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کو بے نقاب کرنے والی یو این رپورٹ کی معلومات عالمی قیادت سے شیئر کریں گے اوریہ بھی بتائیں گے کہ کس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ اپنی دوستی کی بنا پر بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی سکیورٹی فورسز کشمیر میں جنسی جرائم میں ملوث ہیں۔ طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا جارہا ہے اورپرامن کشمیریوں کو شہیدکیا جارہا ہے۔ کشمیریوں کوٹارچر سیلوں میں ناقابل برداشت تعذیب کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اغوا کرلیا جاتا ہے اور انہیں غائب کردیا جاتا ہے۔ ان کے گھر والوں کو کچھ پتہ نہیں کہ ان کے ساتھ کیا بیتی۔ پیلٹ گنوں سے نوجوانوں کو جس بے دردی کے ساتھ اندھا کیا گیا اس کے بارے میں رپورٹ میں ذکر ہے یا نہیں مجھے نہیں معلوم،تاہم شاہ محمود اس کا بھی ضرور تذکرہ کریں۔ 2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد جذبہ آزادی کشمیر میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا ہے۔ اس موقع پر بھارت نے چند دنوں میں 1314 لوگوں کوان گنوں کی گولیوں سے آنکھوں کی بینائی سے محروم کردیا۔ پرامن مظاہرین کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک دنیا میں آج تک کہیں نہیں ہوا ہوگا۔ لیگ آف نیشنز کے بعد اقوام متحدہ کا قیام ساری دنیا کے لیے آزادی، مساوی حقوق اور عدل و انصاف کی یقینی فراہمی کے لیے وجود میں آیا تھا۔ اگر ستر برس سے زیادہ عرصے کی اقوام متحدہ کی کارکردگی اتنی مایوس کن ہے تو پھر یہ ادارہ اپنے مقصد قیام سے محروم ہو چکا ہے۔ اگر آج بھی نتیجہ یہ ہو کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، تو پھر یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اقوام متحدہ کی پیشانی کے لیے۔ اگرچہ دنیا کو ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننے والے خطاب پر لگنے والا قہقہہ سن کر بہت حیرت ہوئی۔ تاہم حیرت کی اصل بات تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی اب حیثیت بھی محض ایک ’’قہقہہ‘‘ سے زیادہ نہیں۔