وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوز سے ملاقات میں فلسطین و جموں و کشمیر کے تنازعات، افغان امن عمل اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا ۔ دنیاکو باہمی جنگوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا مگر بدقسمتی سے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے کسی بھی مسئلہ پر ویٹو کے اختیار کے باعث اقوام متحدہ کاکردار غیر موثر ہو کر رہ گیا ہے جس کی مثال گزشتہ 7دھائیوں سے مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا ایجنڈے پر ہونے کے باوجود حل نہ ہونا ہے۔ بھارت اور اسرائیل کشمیر اور فلسطین میں عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو خاطر میں لائے بغیر مظلوم اور نہتے عوام پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس سے بڑھ کر بے بسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلسل بمباری سے 66بچوں سمیت 250سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کے باجود امریکہ کی ویٹو کی دھمکی کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل میں قرار داد منظور نہ ہو سکی اور آخر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بلانا پڑا۔ یہ اقوام متحدہ کی کمزوری ہی ہے کہ جنرل اسمبلی کے صدر کو یہ اعتراف کرنا پڑا ہے کہ فلسطین کے معاملے پر بے عملی کی وجہ سے اقوام متحدہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ بہتر ہو گا عالمی برادری سلامتی کونسل میں متعصبانہ طرز عمل کے خاتمے کے لئے موثر حکمت عملی اپنائے تاکہ اقوام متحدہ کو حقیقی معنوں میں فعال اور دنیا کا امن یقینی بنایا جا سکے۔