اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر والکن بوزکر نے خطے کی سلامتی کے لئے تنازع کشمیر کے پرامن حل پر زور دیتے ہوئے تنازع کے حل کے لئے مصالحت کار کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات اور بعدازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس کے صدر والکن بوزکر نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں استحکام اور قیام امن کی خاطر تنازع کشمیر کا طے پانا ضروری ہے‘ جنرل اسمبلی کے نومنتخب صدر کا کہنا ہے کہ پرامن طریقوں سے مشکل مسائل طے کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کا ایک مقصد تنازع کشمیر پر پاکستان کے موقف سے آگاہی بتایا۔ جناب بوزکر نے زور دیا کہ اقوام متحدہ کو کشمیر کے معاملے پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تنازع کشمیر اقوام متحدہ کی ناکامیوں میں سے ایک شمار کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا عالمی ادارہ جو بین الاقوامی امن کے لئے خطرہ بننے والے ممالک کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت دینے کی طاقت رکھتا ہو اور جو اپنی قرار دادوں پر عمل نہ کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کا اختیار رکھتا ہو اسے 72برس سے تنازع کشمیر حل نہ کرنے پر ندامت کا اظہار ضرور کرنا چاہیے۔ معاملہ بہت سیدھا ہے۔ انگریز نے برصغیر کو آزاد کرنے کے لئے ایک ضابطہ متعارف کرایا۔ جس کے تحت 500کے لگ بھگ ریاستوں اور راجواڑوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک دستور ساز اسمبلی کا حصہ بن جائیں۔ انگریز حکمرانوں سے ذاتی طور پر گہرے تعلقات رکھنے والے بعض ریاستی حکمرانوں نے اپنی جداگانہ حیثیت پر اصرار کرتے ہوئے دونوں ریاستوں سے الگ رہنے کی خواہش ظاہر کی جسے مسترد کر دیا گیا۔ پاکستان اور بھارت دونوں نو آزاد ریاستیں کشمیر کا الحاق چاہتی تھیں۔ کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ ڈوگرہ ہندو تھے تاہم وہ اکثریتی مسلم آبادی اور پاکستان کے ساتھ جغرافیائی اتصال کے باعث بھارت سے الحاق میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو اور ان کے رفقاء نے انہیں پاکستان سے الحاق کی صورت میں ایک بھیانک منظر نامے سے آگاہ کیا۔ بھارت کا یہ جھوٹ اور فریب کام کر گیا۔ ہری سنگھ بھارت فرار ہو گئے اور وہاں جا کر بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ دلچسپ امر یہ کہ ان کے دستخط سے پہلے ہی بھارتی افواج کشمیر پہنچ چکی تھیں۔ کشمیری عوام اور پاکستان نے اس ناانصافی اور جبر کے خلاف مزاحمت کی۔ بھارت سے کشمیر کا بڑا علاقہ آزاد کروا لیا گیا۔ بھارتی افواج پسپا ہوئیں تو پنڈت نہرو اقوام متحدہ پہنچ گئے اور سکیورٹی کونسل سے جنگ بند کرانے کی اپیل کی۔ آخر استصواب رائے کے وعدہ پر یہ جنگ بند کر دی گئی۔یکم جنوری 1948ء کو پہلی بار مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں پیش کیا گیا۔ اس کے متعلق قرار داد نمبر 38اور 39منظور کی گئیں۔21اپریل 1948ء کو قرار داد نمبر 47منظور کی گئی۔3جون 1948ء کو قرار داد نمبر 51منظور ہوئی۔13اگست 1948ء کو اقوام متحدہ کے کمشن برائے انڈو پاک کی قرار داد منظور ہوئی جس میں استصواب رائے کے انتظامات اور دونوں ملکوں سے فوجیں نکالنے کا کہا گیا۔5جنوری 1949ء کو کمشن کی دوسری قرارداد منظور ہو ئی جس میں افواج کے انخلا اور جنگ بندی کے ضابطے بیان کئے گئے۔14مارچ 1950ء کو سلامتی کونسل نے قرار داد نمبر 80کے ذریعے فوجی انخلا اور استصواب کے متعلق ہدایات جاری کیں۔10نومبر 1951ء کو قرار داد نمبر 96میں بتایا گیا کہ دونوں ملک اپنی فوجیں واپس بلانے اور استصواب رائے کے لئے رضا مند ہیں۔23دسمبر 1952ء کو پاکستان اور بھارت کو مخصوص تعداد میں فوجی رکھنے کی اجازت دی گئی۔24جنوری 1957ء کو جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت کی توثیق کی گئی۔ بھارت گزشتہ پون صدی کے دوران تنازع کشمیر پر عالمی برادری سے کئے وعدوں سے فرار اختیار کر رہا ہے۔ اس معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک لاکھ سے زاید کشمیری بھارتی افواج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔سینکڑوں خواتین کی بے حرمتی اور ہزار ہا گرفتاریاں عالمی برادری کو کشمیر پر ہمدردانہ سوچ پر قائل نہ کر سکیں۔گزشتہ برس ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران عالمی ماحولیات ،اقتصادیات اور امن کو لاحق خطرات سے متعلق خیالات کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نے تنازع کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ کے کردار‘ سلامتی کونسل میں منظور کی گئی قرار دادوں کا اسی موقع پر ذکر کیا۔ اس تقریر کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی۔ ذرائع ابلاغ نے اسے سراہا۔ پاکستان تنازع کو حل کرنے کے لئے جنگ کی بجائے پرامن طریقوں کو اولیت دیتا ہے جسے پرامن اقوام قابل تحسین قرار دیتی ہیں لیکن پاکستان کے اخلاقی اور قانونی سطح پر حق بجانب ہونے کے باوجود عالمی ادارہ اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہے۔ اقوام متحدہ دنیا سے جنگوں کے خاتمہ کے لئے وجود میں آیا تھا۔ یہ ادارہ پسماندہ اور غریب ممالک میں سماجی اصلاحات اور بہتری کے لئے قابل قدر کردار ادا کر رہا ہے لیکن جہاں مسلح تنازعات یا متنازع علاقوں کا معاملہ آتا ہے اقوام متحدہ بے بس ہو کر چند بڑی طاقتوں کے مفادات کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ جنرل اسمبلی کے نومنتخب صدر والکن بوزکر کا مینڈیٹ بے شک محدود ہے اور انہیں جنرل اسمبلی کے صدر کے طور پر ادارے کے چارٹر کی حدود میں رہ کر کام کرنا ہے مگر جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم سے کشمیر اور فلسطین جیسے تنازعات کے حل نہ ہونے کی وجوہات پر بحث کا آغاز کروا کر اور اپنے سفارتی اثرورسوخ کو بروئے کار لا کر وہ مظلوم کشمیریوں کی مدد کر سکتے ہیں۔