1980ء سے 1988ء تک ‘عراق ایران جنگ میں آٹھ برس تک’ نوجوان قاسم سلیمانی نے‘ جوش جذبے سے بھر پور حب الوطنی سے سرشار‘ پاسداران انقلاب کے نوجوان جنگجو کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 1989ء سے 1997ء اگلے برس ایران پر ہاشمی رفسنجانی کی حکومت رہی اور اس دوران قاسم سلیمانی‘ پراسرار انداز میں منظر نامے سے ہٹ گئے۔ یہ ایک طرح کا ہائبرنیشن پیریڈ تھا۔ جس کی وجہ یہی معلوم ہو سکی کہ انہیں رفسنجانی کی کچھ پالیسیوں سے اختلاف تھا۔ قاسم سلیمانی اس کے بعد بھی پاسداران انقلاب کا حصہ رہے لیکن زیادہ حصہ انہوں نے گمنامی میں گزارا۔ رفسنجانی کی حکومت کے خاتمے کے بعد 1998ء میں قاسم سلیمانی کو القدس فورس کا میجر جنرل بنا دیا گیا۔ القدس ‘ پاسداران انقلاب کا وہ جنگجویانہ ونگ ہے جو ایران سے باہر جنگی آپریشنز میں حصہ لیتا ہے۔ القدس ہی وہ آرمڈ ونگ ہے بعدازاں جس کے سربراہ کی حیثیت قاسم سلیمانی نے اپنے بے پناہ اثرورسوخ اور طاقت کا استعمال ایران سے باہر عراق‘ لبنان‘ شام ‘ افغانستان اور یمن سرزمینوں پر کیا۔ عالمی منظر نامے پر دو بڑی طاقتوں امریکہ اور روس کی پراکسی وار کے لئے مختلف مسلمان ملکوں کو میدان جنگ بنایا جاتا رہا ہے اور جنرل قاسم سلیمانی نے ان پراکسی وارز کو ایران کے مفاد میں Orchestrateکیا۔ معذرت خوا ہ ہوں کہ انگریزی کے اس لفظ کی جگہ مجھے اردو کا کوئی ایسا لفظ نہ مل سکا جو اس لفظ کی معنی خیزی کو اردو میں ترجمہ کر سکتا۔ مجھے اپنی نالائقی کا اعتراف ہے مگر یہ لفظ ’’آرکسٹریٹ‘‘ جس کا ترجمہ منصوبہ بندی بنتا ہے مگر منصوبہ بندی لفظ میں معنی خیزی اور بلاغت کی وہ تہیں نہیں ہیں جو آرکسٹریٹ ہیں۔ مسلم دنیا کی بدقسمتی کہ دو عالمی طاقتوں کے روس اور امریکہ کے لئے لڑی جانے والی ان پراکسی وارز میں مسلمانوں کو مسلکوں میں تقسیم کر کے مقتل کو سرخرو کیا جاتا ہے۔ دل میں ایک پھانس سی اتر جاتی ہے جب قاسم سلیمانی جیسے‘ جی دار‘ بہادر اور نڈر فوجی کمانڈر کے جنگی منصوبوں کو دیکھتی ہوں۔ المیہ سا المیہ ہے کہ ہم مسلکوں میں تقسیم ہو گئے دشمنوں کے ہاتھ میں آلہ کار بن گئے:لیکن تمام حقائق کے باوجود جنرل قاسم سلیمانی‘ کی بہادری کو سراہنے والے موجود ہیں کہ وہ ایسا جی دار تھا کہ امریکہ کو للکارتا۔ ٹرمپ پر آوازے کستا۔ سب سے بڑی عالمی طاقت کو آنکھیں دکھاتا۔ بہادری اور جرأت کو دنیا بھر میں لوگ ایک رومانس سے جوڑ دیتے ہیں اس لئے بہادر اور نڈر ان کے چاہنے والے ان کی غلطیوں سے صرف نظر کرتے ہیں۔ اس لئے قاسم سلیمانی کو ایران میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہوا۔ لاکھوں لوگ ان کے جسد خاکی کو خدا حافظ کہنے سڑکوں پر نکل آئے۔ ان سے چاہت کا فقید المثال مظاہرہ دنیا نے دیکھا۔ یہ اس جنرل سلیمانی کا آخری سفر تھا جو اپنی زندگی میں باقاعدہ منصوبہ سازی کے ساتھ ‘ شہرت اور میڈیا سے دور رہا۔ ایرانی اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر ان کی تصاویر شائع نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے بارے میں CIAکے ایک سابق ڈپلومیٹ نے کہا کہ وہ بہت کم گو‘ کم آمیز شخص تھا۔ کمرے میں داخل ہوتا تو خاموشی سے ایک طرف بیٹھ جاتا۔ کم بولتا، سنتا زیادہ ۔محفل میں مگر جنرل سلیمانی کی موجودگی ہر شخص کے ذہن پر چھائی رہتی تھی۔ شہرت سے قطعاً دور بھاگنے والا شخص‘ جو طاقت اور اپنے نظریات پر پورا ایمان رکھتا تھا اور سب سے بڑھ کر وہ ایران کے اسلامی انقلاب کو دنیا میں ایکسپورٹ کرنا چاہتا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی کی ذاتی حوالوںسے جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بیٹیوں کے نام زینب‘ لیلیٰ اور نرجس ہیں۔ نرجس سلیمانی ملائشیا میں مقیم ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ان کی بیٹی زینب سلیمانی میڈیا کے سامنے آئی اور اپنے باپ کے عزم کو دھرایا اس نے اپنے والد کی طرح ہی نڈر انداز میں سپر پاور کو للکارا اور کہا کہ ایران قاسم سلیمانی کے جان کے نقصان کا بدلہ امریکہ سے ضرور لے گا۔ جنرل قاسم سلیمانی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہی مقبولیت کی حدوں کو نہیں چھو رہے بلکہ اپنی زندگی میں ہی جنرل سلیمانی نے ایک ایسا سٹیٹس حاصل کر لیا تھا جیسے عام فہم میں ہم زندگی سے عظیم تر(Larger than life)کہتے ہیں۔2019ء میں ایپک اینٹی میٹڈ فلم‘battle for persian gulfجنرل سلیمانی کا بھی ایک تصوراتی کردار بنایا گیا‘ جو دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور ‘ امریکہ کے ساتھ صف آرا ہے۔ پینٹا گون اور سی آئی کی سیکرٹ فائلز میں‘ جنرل سلیمانی کو کہیں شیڈو کمانڈر تو کہیں unvisible manلکھا جاتا تھا۔ تجزیہ کار جنرل سلیمانی کو پراکسی وار کا ماسٹر مائنڈ‘ گیم چینجر اور پپٹ ماسٹر آف پراکسی وار لکھ رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اپنی زندگی میں جس طرح پینٹا گون کے اعصاب پر سوار تھے۔ اپنی شہادت کے بعد بھی پینٹا گان‘ جنرل قاسم کے اثر سے نہیں نکل پائے گا۔ 3جنوری 2020ء کے decisive defenceآپریشن کے بعد ایسا ہی لگ رہا ہے کہ امریکہ جنرل قاسم کو بغداد کی سرزمین پر شہید کر کے بھی منظر سے اوجھل نہیں کر سکا۔ جنگ کے شدید خطرات کے بادل چھائے ہیں۔ ایران امریکہ سے اپنے سب سے قیمتی اور کرزمیٹک کمانڈر کا بدلہ لینے کے لئے پرعزم ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی کو لاکھوں مداحین نے سفر آخرت پر روانہ کیا وہ اپنے آبائی شہر کرمان کے گائوں کے رابور(Rabor)میں سپرد خاک ہو چکے ہیں۔ کرمان کا یہ گائوں خوبانیوں‘ اخروٹ‘ ناشپاتیوں اور اپنے بہادر سپاہیوں کی وجہ سے مقبول رہا ہے اور شہرت اور میڈیا سے دور رہنے والے جنرل قاسم سلیمانی جس ڈھب سے دنیا سے روانہ ہوئے اب وہ ایک داستانوی کردار میں ڈھل چکے ہیں۔