خصوصی عدالت کی جانب سے جنرل پرویز مشرف کو آئین شکنی کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت سنانے پر حکومت نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے بعض تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے عدالتی فیصلے کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ ریاستی اداروں میں ہم آہنگی وقت کی ضرورت ہے۔ عدالتیں آزاد ہیں مگر قانون سے بالاتر فیصلے نہیں بنا سکتیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ عسکری قیادت نے جمہوری استحکام کے لئے بھر پور معاونت کی ہے۔ اداروں کو ٹارگٹ کرنے سے قومی سلامتی دائو پر لگ سکتی ہے۔ فوج کا مورال بلند رکھنا قومی فریضہ ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ’’عدالتی فیصلے پر افواج میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور سابق صدر غدار نہیں ہو سکتے‘‘۔ پاکستان ایسا ملک ہے جس کے پاس ترقی کے لئے تمام وسائل وافر موجود ہیں مگر جنوبی ایشیا میں شرح نمو کے اعتبار سے اس کا شمار بنگلہ دیش‘ بھارت ‘ سری لنکا اور مالدیپ کے بعد ہوتا ہے۔ پورے خطے میں حالات مثالی نہیں رہے مگر ہر ریاست نے اپنے داخلی و خارجی مسائل کو بتدریج ختم یا کم کیا اور آخر کار قانون کی بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ قانون کی بالادستی اسی وقت قائم ہو سکتی ہے جب ریاستی ادارے اپنے دائرہ کار میں رہیں اور اپنے اختیارات کا استعمال ریاستی استحکام کو پیش نظر رکھ کر کریں۔ مقننہ اور عدلیہ کے ساتھ پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں فوج بھی ایک ریاستی ستون ہے۔ عموماً جب بھی ملک میں بحران کی صورت حال پیدا ہوئی اس کی وجہ سول ملٹری تعلقات میں خرابی دکھائی دی۔ سول سے مراد سیاسی قیادت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ محمد خان جونیجو‘ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ان سب نے ایسے بحرانوں کو دیکھا اور ان کی نذر ہوئے۔ جس چیز کو نظریہ ضرورت کا نام دے کر ہمارے ہاں مباحث کو گرمایا جاتا ہے اس میں سب سے اہم عدلیہ کے وہ فیصلے ہیں جن میں فوجی حکمرانوں کو سیاسی حکومتوں کا تختہ الٹنے کا قانونی و آئینی جواز فراہم کیا گیا۔ ایسے فیصلوں کی وجہ سے کئی تنازعات پیدا ہوئے جو پاکستانی سماج میں قانونی رائے تقسیم کرنے کا موجب بنے۔ اعلیٰ عدلیہ کے متعدد چیف جسٹس صاحبان نے اپنی پالیسیوں کو اس طرح ترتیب دیا کہ ایک طرف عام آدمی کو عدالتی فعالیت سے فائدہ پہنچے اور دوسری طرف عدلیہ پر متنازع فیصلے کا جو داغ تھا اسے دھونے کی خواہش وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی۔ جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں جب میاں نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا تو یقینا یہ ایک خلاف آئین اقدام تھا۔ اکثر سیاسی جماعتیں اس اقدام کی مخالفت اور مذمت میں پیش پیش رہیں۔ عدالتوں کو اپنے تشخص کے حوالے سے جو حساسیت رہی ہے جنرل پرویز مشرف نے 3نومبر 2007ء کو ایمرجنسی پلس لگائی تو وہ حساسیت جاگ اٹھی۔ چیف جسٹس افتخار چودھری اور ان کے حامی 60کے قریب ججوں کی بحالی کے لئے جو تحریک چلائی گئی وہ اس حساسیت کا مظہر تھی۔ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا عدلیہ کی طرح سیاستدانوں کی بھی ذمہ داری تھی۔سن 2006ء میں ملک کی دو بڑی جماعتوں نے لندن میں میثاق جمہوریت کیا۔ اس میثاق میں طے کیا گیا کہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حکومت گرانے کے لئے فوج کو مداخلت کی دعوت نہیں دیں گی۔ مسلم لیگ ن بہت جلد یہ عہد فراموش کر بیٹھی۔ یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا۔ پھر سوئس حکومت کو سوئس اکائونٹس کے ضمن میں خط لکھنے کا معاملہ تنازع بنا۔ میاں نواز شریف خود کالا کوٹ پہن کر عدالت میں پیش ہوئے۔ آخر مسلم لیگ ن کی موثر سرگرمیاں یوسف رضا گیلانی کی سیاسی حمایت میں کمی کا سبب بنیں اور وزیر اعظم گیلانی آئینی و جماعتی مفادات کی چکی میں پس کر مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے۔ میاں نواز شریف 2013ء میں جب وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ان کے سامنے پیپلز پارٹی کی حکومت کو دیا گیا وہ طعنہ کھڑا ہو گیا کہ پی پی نے پرویز مشرف کو پروٹوکول دے کر رخصت کیا۔ اپنی اخلاقی حیثیت کو متوازن کرنے کے لئے انہیں یہ چیلنج درپیش تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔ حق تو یہی تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف بارہ اکتوبر 1999ء کے اقدام پر مقدمہ چلتا مگر حکومت جانتی تھی کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ فوج لڑ رہی ہے ان حالات میں کوئی کمزور سا مقدمہ بنا کر اپنی ساکھ بچانا ضروری تھا لہٰذا جنرل پرویز مشرف کی طرف سے 2007ء میں ایمرجنسی لگانے اور اعلیٰ عدلیہ کے 60ججوں کو نظر بند کرنے کے معاملے پر مقدمہ بنا دیا گیا۔ اس مقدمے میں کئی قانونی سقم تھے جن کی بابت ماہرین قانون وضاحت سے بات کر رہے ہیں۔ تاثر یہ بننے لگا کہ مسلم لیگ ن اس مقدمے کو اپنی سیاسی طاقت بڑھانے اور فوج کو شرمندہ کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ ایسے میں عدالت کو ایک الگ تاثر دیا گیا۔ یوں معلوم ہوا کہ کچھ سیاسی حلقے جلد سے جلد اس مقدمے کا فیصلہ چاہتے تھے۔ ممکن ہے اس معاملے میں عدلیہ میں بھی فوجی سربراہوں کے مقابل عدالتی نظام کی برتری بحال کرنے کا خیال ہو۔ ذرائع ابلاغ میں چند ہفتے قبل چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ کا ملتان بار سے خطاب نمایاں طور پر پڑھا اور دیکھا گیا جس میں انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کی بات کی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلے کو فوج اور حکومت نے جس طرح دیکھا اس کا پس منظر قابل فہم ہے تا ہم خصوصی عدالت نے جس طرح طے شدہ اصولوں کو نظر انداز کر کے عجلت میں فیصلہ دیا وہ فہم سے بالا ہے۔ ملک کو آج بھی استحکام کی ضرورت ہے تاکہ معیشت فروغ پا سکے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو آزادی سے استوار کیا جا سکے۔ ان حالات میں تنازعات کا خاتمہ کی بجائے نئے تنازعات پیدا کرنا قومی استحکام کے لئے سود مند نہیں ہو سکتا۔