آخرکار تحریک انصاف کی حکومت سے کوئی اچھی خبر بھی سننے کو ملی ۔ عمران خان نے الیکشن سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ بنا ئیں گے۔ انہوںنے اپنے تمام دعوے اور وعدے ابتدائی سو دنوں سے منسلک کئے تھے۔ اس وقت خان صاحب کے وہم وگماں میں بھی نہیں ہوگا کہ حکومت ہوتی کیا ہے، اسے چلانے کے لئے کیا عملی مشکلات آتی ہیں اور کہاں کہاں رکاوٹیں درپیش ہوں گی۔ 2013ء میں تحریک انصاف مرکز میں توقع کے مطابق نشستیں نہیں لے پائی تھی، مگر خیبر پختون خوا میں اسے حکومت مل گئی ۔ اس وقت دو چار لوگوں نے لکھا کہ خان صاحب اگر ہمت کریں تو وزیراعلیٰ کے پی بننے کا چیلنج قبول کریں۔ صوبے میں ووٹ انہی کے نام پر پڑے تھے ۔ عمران خان نے ایسا کرنے کے بجائے مرکز میں اپوزیشن کو ترجیح دی۔ اگر عمران خان کے پی حکومت میں دلچسپی لیتے تو انہیں حکومت چلانے کا کچھ تجربہ حاصل ہوجاتا۔ ایسا اگر ہوتا تو آج ناتجربہ کاری کے مظاہرے دیکھنے کونہ ملتے۔ عمران خان نے اپنے پہلے سو دنوں میں نہ سہی، پہلے دو برسوں میں جنوبی پنجاب کے لئے ریجنل سیکریٹریٹ بنانے کا وعدہ ضرور پورا کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ آج عمران خان چاہیں تب بھی وہ جنوبی پنجاب صوبہ نہیں بنا سکتے۔ آئین کے تحت جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے پہلے قومی اسمبلی اور سینٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ قرارداد منظور کرنا ہوگی، اس کے بعد وہ پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس کی منظور ی لازمی ہے۔ اس کے بعد ہی پنجاب کو تقسیم کر کے نیا صوبہ بنانا ممکن ہوپائے گا۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں چند ارکان کی اکثریت حاصل ہے۔ سینیٹ میں تحریک انصاف کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں، وہاں دو تہائی اکثریت کے لئے صرف مسلم لیگ ن کی حمایت لازمی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی وغیرہ کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔ رہی پنجاب اسمبلی تو وہاں بھی آٹھ دس ارکان اسمبلی کی اکثریت حاصل ہے۔ اس لئے تکنیکی طور پر تحریک انصاف اس بار چاہنے کے باوجود جنوبی پنجاب صوبہ نہیں بنا سکتی۔ اس جانب پہلا قدم البتہ اٹھا سکتی ہے۔ تحریک انصاف پر ہزار حوالوں سے تنقید ہوسکتی ہے، مگر یہ ماننا پڑے گا کہ جنوبی پنجاب کے لئے ریجنل سیکریٹریٹ بناناپہلا حقیقی قدم ہے۔پچھلے پچاس برسوں میں پہلی بار ایساہوا ہے۔ چند دن پہلے تک تو ایسے لگ رہا تھا کہ شائد ریجنل سیکریٹریٹ کاغذی کارروائی ہے، پنجابی محاورے کے مطابق گونگلوئوں سے مٹی اتارنے کی کوشش۔ اب صورتحال واضح ہوچکی ۔ جنوبی پنجاب کے لئے ایک مکمل طور پر بااختیار ایڈیشنل چیف سیکریٹری مقرر کیا گیا ہے، جس کے پاس ایک درجن سے زیادہ صوبائی محکمے ہوں گے اور ان تمام کے لئے مکمل طور پر بااختیار سیکریٹری ملیں گے۔ یہ سیکریٹری صاحبان ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے ماتحت ہوں گے اور یوں جنوبی پنجاب کے دفتری معاملات ریجنل سیکریٹریٹ ہی میں طے ہوں گے۔ سائلین کو لاہور چکر لگانے کی قطعی ضرورت نہیں۔ یہ یاد رہے کہ جنوبی پنجاب سے مراد تین ڈویژن ملتان، بہاولپور ، ڈی جی خان ہیں۔ ان میں سرگودھا ڈویژن کا کوئی ضلع (بھکر، میانوالی وغیرہ)شامل نہیں۔ تاحال یہ صورتحال ہے۔ اس وقت جو ریجنل سیکریٹریٹ بنایا گیا یہ صرف بہاولپور،ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان کے گیارہ اضلاع کے لئے بنایا گیا ہے۔بہاولپور، رحیم یار خان، بہاول نگر، ملتان ، لودھراں، خانیوال، وہاڑی، ڈی جی خان، مظفر گڑھ، راجن پور، لیہ۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے پاس جو صوبائی محکمے آ رہے ہیں، وہ بڑے اہم اور بنیادی نوعیت کے ہیں، جیسے فنانس، ڈویلپمنٹ، ہیلتھ، ایجوکیشن، اری گیشن، ایگری کلچر وغیرہ ۔بیشتر صوبائی معاملات ان محکموں سے متعلق ہوتے ہیں۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے ساتھ ایک اور قدم ایڈیشنل آئی جی پولیس کی تقرری کا بھی اٹھایا گیا ہے۔ قارئین،آپ سوچ رہے ہوں گے کہ تحریک ورکنگ سٹائل کو دیکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہونی چاہیے ، یہ تو سب کچھ اچھا لگ رہا ہے۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ریجنل سیکریٹریٹ بناتے ہوئے سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوا کہ کس شہر میں بنایا جائے۔ عمومی طور پر جنوبی پنجاب کا مرکز ملتان کو سمجھا جاتا ہے، تکنیکی طور پر بھی یہ مرکز بنتا ہے کہ لیہ، ڈی جی خان وغیرہ کے ساتھ بہاولپور ملتان سے ڈیڑھ دو گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہیں۔ رحیم یار خان البتہ ملتان سے چار پانچ گھنٹے دور پڑتا تھا، مگر اتفاق سے ملتان سکھر موٹروے کی بدولت رحیم یار خان ملتان سے بمشکل ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر آ چکا ہے۔ یاد رہے کہ اس موٹر وے سیکشن میں ملتان سے بہاولپور اور پھر وہاں سے احمد پورشرقیہ، لیاقت پور، خان پور وغیرہ سے ہو کر رحیم یار خان جانے کے بجائے بیچ سے راستہ نکالا گیا ، یوں مسافت نصف سے بھی کم رہ گئی۔ خوش قسمتی سے یہاں مسلم لیگی وزیر چودھری نثار موجود نہیں تھاجس نے اپنے علاقہ چکری کو موٹر وے میں شامل کرنے کے لئے سو ڈیڑھ سو کلومیٹر طویل موٹر وے بنوائی۔ دنیا بھر میںموٹر وے شارٹ کٹ راستہ بنتا ہے۔ لاہور اسلام آباد موٹر وے عام راستے یعنی جی ٹی روڈ سے زیادہ لمبی ہے۔اس کارنامے پرجناب نواز شریف اور ان کے عزت مآب وزیر کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ ریجنل سیکریٹریٹ کے لئے شائد ملتان کااعلان کر دیا جاتا کہ اس دوران صوبہ بہاولپور کی بحالی کے حوالے سے شورشرابا شروع ہوگیا۔ یہ بھی دلچسپ قصہ ہے۔ یہ سلسلہ بہاولپور کے ناکام ، فرسٹریٹیڈ سیاستدانوں نے شروع کیا تھا۔ محمد علی درانی جب پرویز مشرف کی بخشی ہوئی وزارت سے فارغ ہوئے، کوئی اور کام نہیں تھا تو انہیں یاد آیا کہ اوہو میں تو احمد پورشرقیہ میں پیدا ہوا تھا، اگرچہ اپنی زندگی کے چالیس سالوں میں کبھی اس شہر کو لفٹ نہیں کرائی نہ خود کو کبھی احمد پوری کہا ، مگر اب وقت آگیا ہے۔ وہ ترنت احمد پورشرقیہ پہنچے اور نواب آف بہاولپور صلاح الدین عباسی کو مشورہ دیا کہ بہاولپور صوبہ بحالی تحریک کا جھنڈااٹھا ئیں۔ نواب بہاولپور جو ماضی میں خیر سے احمد پورشرقیہ سے چار پانچ مرتبہ ایم این اے رہے ہیں، الحمد للہ ٹکے کا کام بھی نہیں کیا، وہ عملی سیاست سے آئوٹ تھے،اس مشورے سے ہڑبڑا کر گویاسرمائی نیند سے جاگ گئے۔ ان کے ساتھ مخدوم احمد محمود بھی متحرک ہوئے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے والد محترم مخدوم زادہ حسن محمودبہاولپور صوبہ بحالی تحریک کے اعلانیہ مخالف رہے ہیں۔ خیر یہ تحریک تو حسب توقع ٹھس ہی ہوگئی، مگر پیپلزپارٹی نے اس سے نمٹنے کے لئے ایک نیافارمولہ نکالااوربہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ کی تجویز دی جس کی رو سے جنوبی پنجاب کا صوبہ بنے گا اور دارالحکومت بہاولپور ہوگا۔ مسلم لیگ ن سرے سے پنجاب کی تقسیم کے مخالف ہے کہ شریف برادران اپنے علاوہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کر سکتے، جنوبی پنجاب کے لئے وزیراعلیٰ ظاہرہے وہاں کے کسی مقامی کو بنانا پڑے گا تو وہ یہ رسک لینے کو تیار نہیں ۔ن لیگ نے نیا شگوفہ چھوڑا کہ جنوبی پنجاب کا صوبہ الگ بنایا جائے اور بہاولپور صوبہ الگ سے بنے۔ یہ بے تکی تجویز ہے کیونکہ اگر بہاولپور الگ صوبہ بن گیا تو پھر ملتان ، ڈی جی خان پر مشتمل الگ سے جنوبی پنجاب صوبہ کیوں بنایا جائے؟ اس میں ساہیوال کا اضافہ ہو یا پھر سرگودھا ڈویژن کو ساتھ ملایا جائے۔ مقصد چونکہ کنفیوژن پیدا کرنا تھا، اس لئے ن لیگ نے تجویز داغ دی گئی۔ تحریک انصاف نے ریجنل سیکریٹریٹ کا فیصلہ کیا تو ضلع بہاولپور کی پانچ نشستوں میں سے صرف ایک سیٹ بمشکل جیتنے والے طارق بشیر چیمہ متحرک ہوئے، انہوں نے بہاولپور بحالی صوبہ کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں مسئلے کو نمٹانے کے لئے فیصلہ کیا گیا کہ ریجنل سیکریٹریٹ بہاولپور بنایا جائے۔ ایک طرح سے یہ پیپلزپارٹی کی تجویز کی تقلید تھی۔ یہ فیصلہ ملتان کے اراکین اسمبلی پر بجلی بن کر گرا۔ شاہ محمود قریشی، عامر ڈوگر وغیرہ نے احتجاج کیا تو ایک عجیب وغریب اعلان کیا گیا کہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری بہاولپور بیٹھے گا اور ایڈیشنل آئی جی پولیس ملتان بیٹھے گا۔ اگلے روزشاہ محمود قریشی نے الگ سے ایک وضاحتی بیان جاری کیا کہ ابھی یہ طے نہیں کہ جنوبی پنجاب صوبے کا دارالحکومت کسے بنایا جائے گا؟الیکشن ہوجائیں ، پھر اسمبلی یہ طے کرے گی کہ دارالحکومت کسے بنایا جائے؟ وقتی طور پرتب طوفان تھم گیا۔ اب ریجنل سیکریٹریٹ کے لئے ریجنل چیف سیکریٹری ، ایڈیشن آئی جی کی باضابطہ تقرری ہوئی تو کنفیوژن شدید ہوچکا ہے۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ ایڈیشن چیف سیکریٹری صاحب سابق اعلان کے مطابق بہاولپور بیٹھیں گے یاملتان ؟ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری صاحب جنوبی پنجاب پہنچ چکے ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ دو دن بہاولپور، دو دن ملتان بیٹھیں گے اور ایک دن شائد ڈی جی خان کے حصے میں آئے گا۔عملی طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ صرف ایڈیشنل چیف سیکریٹری کا معاملہ نہیں بلکہ ایک درجن سے زائد محکموں کے سیکریٹری صاحبان اور انکے ماتحت پوری انتظامی ٹیمیں ہوں گی۔ کیا یہ سب لوگ ہر دو دن کے بعد قافلہ بنا کر فائلیں گاڑیوں میں لادے شہر شہر گھومیں گے؟ کیا اس طرح سے انتظامیہ کام کر سکتی ہے؟ کیا یہ انتظامی کام کرنے کا طریقہ ہے؟ ظاہر ہے نہیں، حکومت کو واضح پوزیشن لینی ہوگی۔ ایک فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔ ملتان یا بہاولپور۔بڑے فیصلوں سے بچنے سے نہیں بلکہ فیصلے کرنے سے لیڈر بڑے کہلاتے ہیں۔ یہ بات خان صاحب کو بتانے کی ضرورت ہے۔ زنگار/ عامر خاکوانی