تحریک انصاف کی حکومت نے جنوبی پنجاب کے ووٹرز کے ساتھ ایک اہم وعدہ تو پورا کر دیا ہے۔ نیا صوبہ بنانے کے لئے اسمبلیوں میں اکثریت ان کے پاس نہیں ، وہ نہیں بنا سکتے ، مگر ریجنل سیکریٹریٹ بنانا ممکن تھا، وہ بنا دیا گیا۔ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد یعنی پچھلے پچاس برسوں میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی حکومت نے جنوبی پنجاب کے عوام کے لئے ریجنل سیکریٹریٹ بنا دیا ہے۔شہباز شریف صاحب نے وعدہ کیا تھا، مگر عملی قدم اٹھانے سے دانستہ گریز کیا، ورنہ ان جیسے مضبوط ایڈمنسٹریٹر کے لئے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ خیر انہیں اس کا سبق بھی مل گیا۔تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو ملتان اور بہاولپور میں سے کسی ایک شہر کا انتخاب کرنا ہوگا ۔ جہاں باقاعدہ ریجنل سیکریٹریٹ بنایا جائے اور مستقل بنیادوں پر معاملات آگے بڑھیں۔ گزشتہ روز کے کالم کے بعدکئی قارئین کے میسج آئے کہ آپ کی رائے میں کون سا شہر زیادہ مناسب رہے گا۔ یہ مشکل سوال ہے، میرے لئے دونوں شہر اہم اور محترم ہیں، دونوں کے ساتھ محبت کا تعلق ہے۔ بہاولپور میرا آبائی ضلع ہے، اگرچہ میری تعلیم احمد پورشرقیہ ہی ہوئی یا پھر کچھ حصہ کراچی میں مکمل ہوا۔ بہاولپور میں کبھی نہیں رہا، مگر شہر کے طور پر پسند ہے، دھیمے سروں کے گیت کی مانند پرسکون، خوبصورت، دل کو چھو لینے والا۔ دوسری جانب ملتان سے ہم خاکوانیوں کا رشتہ بڑا گہرا اور قدیم ہے۔ ملتان خاکوانیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، یہاں قریبی عزیز ہیں،میرے ننھیال سے تعلق رکھنے والی ملیزئی فیملیزآباد ہیں ۔ ملتان بھی رہنے کا موقعہ نہیں ملا، شہر سے مگر محبت کی مہک آتی ہے، اس کا اپنا خاص فلیور ہے۔ ملتانیوں کا خاص مزاج ہے، ریاستی بہاولپوریوں سے قدرے مختلف ،مگر دل موہ لینے والا۔ ملتان کے کھانے مجھے بڑے پسند ہیں، سوہن حلوہ تو اس کا مشہورہے ہی، مگر وہاں کی بہت سی چیزیں کمال کی ہیں،ناشتے کے لئے ملتان کے چھولوں ، پوری، قتلمہ، دال مونگی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ڈیرہ اڈہ کا کڑھائی گوشت، گھنٹہ گھر کی چانپیں، دلمیر کے کھوئیے والے پیڑے ،غوری مارکیٹ کی توے والی چھوٹی ٹکیاں وغیرہ، جبکہ محلہ قدیرآباد جو ملتان میں پٹھانوں کا علاقہ رہا ہے، وہاں کے پائے،سوہن حلوہ وغیرہ۔ ملتان اولیا کا مرکز رہا ہے، بڑے جلیل القدر بزرگ یہاں مدفون ہیں، ملتان سیاسی اعتبار سے بھی زرخیز رہا ہے، قریشی ، گیلانی خاندان ہمیشہ سے نمایاں رہے ہیں، مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی الگ سے جگہ بنائی۔ کاروباری اعتبار سے بھی بڑا مرکز ہے۔ملتان کو ایک بڑا ایڈوانٹیج یہ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے نام پر زیادہ تر ترقیاتی پراجیکٹ ملتان ہی میں لگتے رہے۔ انجینئرنگ یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی ،کارڈیالوجی ہسپتال، نشتر ہسپتال 2، میٹرو ٹرین وغیرہ۔ شہباز شریف یا پرویز الٰہی دونوں نے جنوبی پنجاب کو مطمئن کرنے کے لئے جو بھی پراجیکٹ سوچا،ا س کے لئے ملتان کا انتخاب کیا۔ بہاولپور میں شائد ہی کوئی ایسا پراجیکٹ لگا ہو۔ ڈی جی خان ہمیشہ سے محروم رہا۔ اس بار وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے البتہ ڈیرہ غازی خان کے لوگوں کی تمام محرومیاں دور کر دی ہیں۔ ملتان کے ساتھ ایک ڈس ایڈوانٹیج یہ ہے کہ شہر بہت گنجان ہوچکا ہے اور پہلے ہی غیر ضروری حد تک پھیل گیا ۔ بہاولپور گنجان نہیں اور پھیلنے کی بہت گنجائش ہے۔ دو تین اطراف سے بہاولپور میلوں تک آسانی سے پھیل سکتا ہے۔بہاولپور میں ریجنل سیکریٹریٹ بنانے کا سب سے بڑا ایڈوانٹیج یہ ہوگا کہ بہاولپور صوبہ بحالی کی تحریک دم توڑ جائے گی۔ بہرحال یہ فیصلے حکومت نے کرنے ہیں، وہ سوچ سمجھ کر، دیکھ بھال کر، ماہرین کی مشاورت سے فیصلہ کرے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ریجنل سیکریٹریٹ منزل نہیں بلکہ اس جانب پہلا قدم ہے۔ نیا صوبہ بننے سے پہلے اس کی تیاری بہت اہم ہے ۔ ریجنل سیکریٹریٹ کے ساتھ فوری طور پر ریجنل پبلک سروس کمیشن قائم ہونا چاہیے۔ مقامی نوجوانوں کو مقابلے کے امتحان کے بعد منتخب کیا جائے۔ بیس پچیس سال قبل صوبائی پبلک سروس کمیشن کے تحت جنوبی پنجاب کے لئے زون بی قائم کیا گیا تھا، چند ایک سیٹیں مختص ہوتیں، جن میں صرف جنوبی پنجاب کے طلبہ ہی امتحان دے سکتے تھے۔ یہ تجربہ اس لئے ناکام ہوا بلکہ شائد ناکام بنایا گیا کہ سیٹیں بہت ہی کم نکلتیں۔ اس بار حقیقی بنیادوں پر جنوبی پنجاب کے لئے معقول تعداد میں سیٹیں نکالی جائیں۔،ا ن پر مقامی لوگ بھرتی ہوں تاکہ مستقبل میں وہاں کے سیکریٹریٹ اور تمام اضلاع، تحصیلوں میں کام کرنے کے لئے سیکشن افسر، مجسٹریٹ، تحصیل دار، ایکسائز انسپکٹر، فوڈ انسپکٹر وغیرہ تیار ہوں۔لاہور ہائیکورٹ کے ملتان اور بہاولپور میں بنچ موجود ہیں، تاہم سول ججز اور ایڈیشنل سیشن ججزکے امتحان کے لئے جنوبی پنجاب کا کوٹہ مقرر کر کے مناسب تعداد میں سیٹیں دی جائیں تو ماتحت عدالتوں کے لئے مقامی جج صاحبان موجود ہوں گے اور پنجاب سے مستعار نہیں لینے پڑیں گے۔ پولیس میں بھرتی بھی اہم ضرورت ہے۔ مقامی نوجوانوں کو پولیس فورس میں موقعہ دیا جائے ، انسپکٹر اور سب انسپکٹرصاحبان کی معقول تعداد مقابلے کے امتحان کے ذریعے بھرتی کی جائے تاکہ مستقبل کے لئے ضرورت پوری ہو۔ یہ سب نیا صوبہ بنانے کی تیاریوں کا حصہ ہے۔ اگر تحریک انصاف سنجیدہ ہے، جیسا کہ ریجنل سیکریٹریٹ بنا کر اس نے اشار ہ دیا تو اسے یہ سب بھی کرنا چاہیے۔ اس میں سستی کی گنجائش نہیں، برق رفتاری سے فیصلے اور ان پر عملدرآمد کیا جائے کیونکہ مقابلے کے امتحانات کے پراسیس میں بھی چھ آٹھ ماہ سے ایک سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ایک اور شعبہ جیل خانہ جات کا بھی ہے، جنوبی پنجاب کے بیشتر اضلاع میں جیلیں موجود ہیں، مگر زیادہ تر سپرنٹنڈنٹ صاحبان کا تعلق سنٹرل پنجاب سے ہے۔ ضروری ہے کہ جو چند ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ مقامی ہیں، انہیں سپرنٹنڈنٹ بنانے کا عملی تجربہ فراہم کیا جائے تاکہ مستقبل میں وہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ یہ سب اس لئے ضروری ہے کہ یہ صوبائی محکمے ہیں، ان کے لئے وفاقی ملازمین نہیں مانگے جا سکتے۔ مقامی سطح کی ضرورت کا ابھی سے اندازہ کر کے تیاری مکمل کر لینی چاہیے۔ سال ، ڈیڑھ، دو برسوں کے اندر یہ سب ہوسکتا ہے۔ ایک اور اہم کام نئے اضلاع کی تشکیل ہے۔ یہ بہت ہی اہم ہے کیونکہ جنوبی پنجاب کے کئی علاقے نصف صدی سے محروم ہیں۔سب سے زیادہ زیادتی بہاولپور ڈویژن سے ہوئی۔ پچھلے ستر برسوں سے وہاں صرف تین اضلاع بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان ہیں۔ احمد پورشرقیہ وہاں کی قدیمی تحصیل ہے، اس کی تاریخی حیثیت ہے کہ نواب آف بہاولپور کا مسکن یہی شہر تھا، ان کا صادق گڑھ پیلس احمد پور ہی میں ہے، نواب صاحب ہی کی وجہ سے شہر کے ریلوے سٹیشن کا نام احمد پورشرقیہ کی جگہ ڈیرہ نواب صاحب کہلاتا ہے۔ احمد پورشرقیہ کو ضلع بنایا جانا چاہیے۔ یہ بہت پرانا مطالبہ ہے اور اس کے لئے باقاعدہ عوامی تحریک بھی چلتی رہی ہے۔ احمد پور بہاولپور سے پچپن ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اگر یہ ضلع بنا تو اوچ شریف جیسا تاریخی شہرجو آج کل سب تحصیل ہے، وہ تحصیل بن جائے گا۔ خان پور بھی ضلع رحیم یار خان کا حصہ مگر بڑا مشہور، تاریخی شہر ہے۔ خان پور کو ضلع بنانا اس کا حق ہے۔ یہ رحیم یار خان سے تیس پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، مگر یہ کوئی عذر نہیں۔ سنٹرل پنجاب میں ننکانہ، منڈی بہائوالدین، حافظ آباد جیسے شہر پندرہ بیس کلومیٹر کی مسافت کے باوجود ضلع بنائے گئے ہیں۔بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں بھی الگ ضلع بنایا جا سکتا ہے۔ گوجرانوالہ ڈویژن میں چھ اضلاع ہیں، بہاولپور ڈویژن میں بھی چھ ہوسکتے ہیں۔تونسہ پنجاب کی سب سے پسماندہ تحصیل ہے، یہ ڈی جی خان سے نوے کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اسے ضلع بننا چاہیے۔ ایک تجویز آئی تھی کہ لیہ کو ڈویژن بنا کر تونسہ کو اس کے ساتھ ملادینا چاہیے، میانوالی، بھکر بھی اس ڈویژن کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہوجائے تو اچھا ہے۔اگر تونسہ کو ضلع نہیں بنانا تو کوٹ ادو کو ضرور بننا چاہیے۔ نئے صوبہ بننے میں چلیں کچھ وقت لگ جائے گا، مگر نئے اضلاع تو فوری بن سکتے ہیں۔سردار عثمان بزدار کو یہ کریڈٹ لینا چاہیے۔ وزیراعلیٰ ایک اور کام کر کے سرائیکی وسیب کی تاریخ میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔ انہیں سرائیکی زبان کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔ سرائیکی خطے کی ترقی کے لئے کچھ کرنا بہت اچھا ہے، اس کا وسیب کے تمام زبانیں بولنے والے باسیوں کو فائدہ ہوگا۔ اس کے ساتھ مگر سرائیکی زبان، کلچر کے لئے بھی کچھ کرنا چاہیے۔ سرائیکی ادبی بورڈ کو صوبائی مالی مدد کی ضرورت ہے، پرائمری کی سطح پر سرائیکی زبان کا ایک قاعدہ ہی شروع کر دیں۔ بچوں کو سرائیکی پڑھنا تو آجائے، خیبر پختون خوا میں ڈی آئی خان، ٹانک وغیرہ کے لئے یہ تجربہ کیا گیا ہے۔ سب سے اہم یہ کہ سرائیکی زبان میں ایم اے اور پی ایچ ڈی ہوسکتا ہے، مگر ایف اے میں طلبہ آپشنل زبان میں سرائیکی زبان نہیں رکھ سکتے۔ یہ ستم ظریفی ہے۔ وزیراعلیٰ نے صرف ایک حکم جاری کرنا ہے اور فوری طور پر کم از کم بہاولپور، ڈی جی خان اور ملتان بورڈ کی انٹرمیڈیٹ کلاسز کے لئے سرائیکی آپشنل شروع ہوجائے گا۔ اقتدار آتا جاتا رہتا ہے، آج کتنے سابق وزرا اعلیٰ کو ہم جانتے ہیں؟ کچھ عملی کام کیا جائے تو تاریخ اس کردار کو کبھی نہیں بھولتی۔سردار عثمان بزدار ویسا کردار بن سکتے ہیں۔