شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شریک تمام رہنمائوں نے طالبان کی واپسی کے بعد افغانستان کو تنہا ئی اور لاتعلقی سے بچانے کی حمایت کی ہے۔اس موقف کی بنیاد وہ معاشی فوائد اور امن ہے جو افغانستان کے رستے ان تمام ہمسائیہ ممالک تک پہنچے گا ۔وزیر اعظم عمران خان نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں ایس سی او کے اجلاس کے موقع پر تاجکستان‘بیلا روس‘ ازبکستان‘ ایران‘ قازقستان اور خطے کے دیگر ممالک کی قیادت سے مشترکہ حکمت عملی اور خطے کے مفادات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے۔وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ان ملاقاتوں میں زیر گفتگو آنے والے امور سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بات چیت کا محور افغانستان کی صورت حال تھی۔خطے کے تمام ممالککی جانب سے علاقائی امن‘تجارتی رابطوں اور ایک دوسرے کے لئے وسائل ترجیحی بنیادوں پر وقف کرنے کی خواہش بڑی واضح نظر آ رہی ہے۔ ٓامریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے تاہمابھی تک افغانستان کے بارے میں صدر جو بائیڈن کی انتطامیہ نے واضح جامع پالیسی کے خد و خال ظاہر نہیں کییجس سے معلوم ہو سکے کہوہ اس علاقے کے بارے میں کن مقاصد کی تکمیل اور مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ امکان ہے کہ جو بھی امریکی پالیسی ترتیب دی جائے گی وہ علاقائی ،جغرافیائی ،سیاسی اور اقتصادی بنیاد پر ہوگی ۔ اس امر کا تعین کیا جائے گا کہ کون کون سے قومی اور بین الاقوامی مفادات کو سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی خاموشی سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سردست کوئی منصوبہ بنانا مشکل ہو سکتا ہے ۔ افغانستان سے پوری طرح امریکی انخلا سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ امریکا وسط ایشیائی ریاستوں سے بھی صرفِ نظر کر لے گا اور ان ریاستوں کو چین یا روس کے زیر اثر ہوتا دیکھے گا۔امریکی حلقوں کے مطابق موجودہ امریکی حکومت وسطی ایشیا کے بارے میں اوباما انتظامیہ کی اس پالیسی پر عمل کرے گی جس پر ٹرمپ انتظامیہ بھی عمل پیرا رہی ہے۔ یہ پالیسی سابق صدر اوباما کے دور میں سن 2011 میں شروع کی گئی تھی۔سچ یہی ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد علاقائی طاقتوں روس اور چین کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک پاکستان و ایران بھی ایک نئی حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں۔ افراتفری کا شکار افغانستان خطے میں عدم توازن کا باعث بن سکتا ہے اور اس میں علاقائی قوتیں توازن قائم کرنے کی کوشش میں ہیں۔ بظاہر افغانستان میں امریکا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے موجود نہیں رہے گا کیونکہ اس ملک سے امریکی سکیورٹی کو مزید خطرات لاحق ہونے کا امکان موجود نہیں رہا۔ اس وقت وسط ایشیا کے پانچ ممالک قازقستان‘ ازبکستان‘ ترکمانستان‘ تاجکستان اور کرغزستان دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ ان ممالک کے قدرتی وسائل اور محل وقوع ہے۔ یہاںتوانائی کے وسیع ذخائر ہیں۔ اس وجہ سے ان ممالک کو مستقبل کا مرکز سمجھاجارہاہے۔ قازقستان‘ ترکمانستان اور تاجکستان کے توانائی کے وسائل دنیا کی توجہ مبذول کروائے ہوئے ہیں۔ وسط ایشیا کی کل آبادی 92 ملین کے قریب ہے۔ یہ آبادی99 فیصد کے قریب خواندہ ہے جو ایک اثاثہ ہے۔ ان ممالک کی مشترکہ قومی پیداوار412 بلین ڈالر کے قریب ہے جس میں قازقستان کا کلیدی حصہ ہے جو224 بلین کے قریب ہے۔ ازبکستان کی قومی پیداوار 56 بلین کے قریب ہے۔ورلد بینک کے مطابق ترکمانستان کی قومی پیداوار42 بلین ڈالر ہے ۔ بحیرہ ارالAral Sea اور بحیرہ قزوینCaspian Sea پانی کے اہم ذرائع ہیں۔ بحر قزوین دنیا کے چار فیصد تیل و گیس کے ذخائر سے مالامال ہے۔ سونا‘ یورینیم اور زِنک کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ وسطیِ ایشیا دنیا میں کپاس کا دوسرا بڑا پیداواری مرکزہے۔ میوہ جات اور سبزیوں کی پیداوار معاش کا ایک اہم ذریعہ ہیں ان تمام خوبیوں کے باوجود وسط ایشیا کی اقتصادیات کا شمار غریب یا ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد جو نئی ریاستیں معرضِ وجود میں آئی تھیں ان میں سے پانچ وسط ایشیا کی ریاستیں تھیں ۔ یہ ریاستیں اپنے اندر قدیم تہذیبوں سے آراستہ تھیں۔ آزادی برقرار رکھنا ان کے لئے ایک چیلنج تھا۔ غربت مٹانا اور اقتصادی بدحالی پر قابو پانا ایک اہم نکتہ بن گیا۔ اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث ان ریاستوں کو ’’ایشیا کا جیول‘‘ (Jewel of Asia) بھی کہا گیا۔ گزشتہ 22 سال سے تمام وسط ایشیائی ریاستیں قومی ترقی کی طرف مائل ہیں۔ چین کا مغربی حصہ ان ریاستوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ دوسری طرف روس ان ریاستوں کے لئے خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ ممالک شنگھائی تعاون کی تنظیم(SCO) میں شامل ہیں۔ پاکستان کی سفارتی و معاشی پالیسی کا ایک مدت تک جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک پر انحصار رہا ہے۔علاقائی فیصلے جنوب ایشیائی سوچ کو مدنظر رکھ کر کئے جاتے رہے ہیں۔ وقت نے ثابت کیا بھارت کی وجہ سے جنوب ایشیا ترقی نہ کر سکا۔افغانستان کی بدامنی نے وسط ایشیا کو ہمیشہ ایک انچھوئی منزل بنا کر دکھایا۔امریکی انخلا کے بعد صورت حال میں تبدیلی اور طالبان کی جانب سے علاقائی ریاستوں کے ساتھ تعاون پر مبنی رویے نے پورے خطے کی سیاست کو تبدیل کیا ہے۔پاکستان نے کاسا 1000 پاورسپلائی سمیت کئی برسوں سے رکے منصوبوں پر پیشرفت شروع کر دی ہے۔وسط ایشیا نئے اور بڑے دو طرفہ منصوبوں کی منڈی ہے۔افغانستان میں امن برقرار رکھنے کے لئے مالی وسائل کی ضرورت ہے جو چین کے سوا کسی ملک کے پاس نہیں لیکن سب کے پاس ایک دوسرے کو تعاون فراہم کر کے آگے بڑھنے کے مواقع ضرور موجود ہیں۔