وزیراعظم عمران خان نے جنوبی پنجاب کو علیٰحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا ۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے الگ سیکرٹریٹ بنا کر انتظامی اختیارات کو خاصی حد تک لاہور سے پنجاب کے جنوبی اضلاع میں منتقل کرنے کی طرف پہلا بامعنی قدم اُٹھالیا ہے۔ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور افسرشاہی نے اس اقدام کی خاصی مزاحمت کی لیکن تین برس بعد حکومت یہ کام کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اگلے روز پنجاب کی کابینہ نے صوبائی حکومت کے رُولز آف بزنس میںترامیم کی منطوری دی جنکے تحت جنوبی پنجاب کے لیے الگ انتظامی سیکرٹریٹ بہاولپور میںکام کرے گا۔ جنوبی پنجاب کی حدود میں تین ڈویژن اور گیارہ اضلاع شامل ہیں۔ کاروبار ِحکومت چلانے کیلیے رُولز آف بزنس میں مختلف محکموں ‘ وزیراعلیٰ‘ وزرا ء اور اعلیٰ افسروں کے دائرۂ کار کا تعین کیا جاتا ہے۔ عام طور پر ایک صوبہ کا ایک ہی انتظامی سیکرٹریٹ ہوتا ہے لیکن یہ تجربہ پہلی بار کیا جارہا ہے کہ ایک صوبہ کے اندر دو الگ الگ بااختیار انتظامی سیکرٹریٹ کام کریں گے۔نئے قواعد کے مطابق جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے تحت سترہ محکمے ہونگے یعنی تیرہ چودہ محکمے بدستور لاہور میں قائم صوبائی سیکرٹریٹ کے دائرہ کار میںرہیں گے۔ جنوبی پنجاب میںایک طرح کا ذیلی سیکرٹریٹ ہے جسکا سربراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوگا جسے اپنی حدود میں آنے والے کمشنر‘ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے بجٹ منظور کرنے اور فنڈز فراہم کرنے کے اختیارات حاصل ہونگے۔ تاہم ان افسروں کے تقررو تبادلے لاہور کے سیکرٹریٹ سے ہوں گے۔جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو گریڈ سترہ تک کے سرکاری افسروں کے تقرر اور تبادلے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں تعینات سیکرٹریوں کوماتحت افسروں کے تقرر‘ تبادلہ اور ترقی دینے کے وہ تمام اختیارات حاصل ہونگے جو مرکزی صوبائی سیکرٹریٹ میں سیکرٹریوں کو حاصل ہیں۔اسکا مطلب ہے کہ اس خطّہ میں لوگوں کو سرکاری محکموں سے جو کام کاج درپیش ہوتے ہیں انکو سلجھانے کیلیے انہین لاہور نہیںآنا پڑے گا بلکہ قریبی واقع بہاولپورکے دفاتر میںانکی دادرَسی ہوسکے گی۔ کئی دہائیوں سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک چل رہی ہے۔ زیادہ تر ملتان اور بہاولپور میں مقیم متوسط طبقہ کے تعلیم یافتہ افراد نے اس تحریک کی نشوونما کی۔ مرحوم تاج لنگاہ الگ سرائیکی صوبہ کے بڑے موید تھے۔ وہ ایک معروف وکیل تھے اورپیپلزپارٹی کے ابتدائی زمانے میں اس پارٹی کے اہم رہنما۔تاہم بعد میں انہوں نے پیپلزپارٹی سے راہیں جدا کرلیں اور خود کو جنوبی پنجاب کے سیاسی حقوق کی جدوجہدکے لیے وقف کردیا۔ جنوبی پنجاب میں بڑے بڑے زمینداروں‘ قبائلی سرداروں کا سکّہ چلتا ہے۔وہی سیاست پر غالب ہیں۔ ان حالات میں تاج لنگاہ انتخابی سیاست میںکوئی کامیابی تو حاصل نہیں کرسکے لیکن انہوں جس نظریہ کی آبیاری کی وہ بالآخر بارآور ہورہا ہے۔ خانپور سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن عبدالمجید کانجو نے بھی اس نظریہ کو پروان چڑھانے میں متحرک کردار ادا کیا۔ جدا گانہ سرائیکی تشخص کے ایک ابتدائی نظریہ ساز آبپاشی کے ایک سول انجینئیر نور علی زمین حیدری بھی تھے جنہوں نے انیس سو ستّر کے اوائل میں ‘معارف سرائیکی‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ انکا موقف تھا کہ سندھ ساگر دوآب (جنوبی پنجاب)سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ہمیشہ اچھے حکمران ثابت ہوئے ہیں کیونکہ وہ تاریخی طور پر حکمرانی کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں اور فنِ حکمرانی میں زیادہ مہارت کے حامل ہیں۔ ہمارے بزرگ ساتھی صحافی ظہور دریجہ نے سرائیکی ثقافت اور خطہ کے مسائل کو اجاگر کرنے میں طویل جدوجہد کی ہے۔ جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان‘ ملتان اور بہاولپور ڈویژن کے گیارہ اضلاع شامل ہیں۔ ان میںصرف ایک وہاڑی کا ضلع ایسا ہے جہاں رہنے والوں کی اکثریت سرائیکی زبان نہیںبولتی ۔دیگر تمام ضلعوں میں سرائیکی زبان بولنے والوں کی اکثریت آباد ہے۔ یُوں تو خیبر پختونخواہ کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان‘ ٹانک اور بنوں جبکہ وسطی‘ شمالی پنجاب میں شامل جھنگ‘ میانوالی‘ اوربھکر کے اضلاع میںبھی سرائیکی بولنے والی آبادی کی اکثریت ہے۔ بعض گروہوں کا یہ موقف رہا ہے کہ ان تمام سرائیکی بولنے والے اضلاع کو ملا کر ایک الگ سرائیکی صوبہ بنایا جائے۔ تاہم ایسا اقدام ملک میں بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف ہوگا۔ یہ ملک میں افتراق و انتشار کی نئی راہ کھول دے گا۔جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا مقدمہ انتظامی بنیادوں پر مضبوط ہے کیونکہ گیارہ کروڑ کی آبادی کا متحدہ پنجاب انتظامی طور پر چلانا اور دُور دراز رہنے والے عوام کو لاہور میں بیٹھ کرخدمات مہیا کرنا روز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے۔ یہ اختیارات کی عدم مرکزیت کا معاملہ ہے۔ یہ بھی مد نظر رہے کہ جنوبی پنجاب میں وسطی پنجاب سے گئے ہوئے آبادکار بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں ،جنہوں نے اپنی محنت شاقہ سے بنجر رقبوں کو آباد کیا ہے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے بڑے‘چھوٹے شہروں میں آبادی کا ایک بڑا حصّہ بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے راجپوت اور دیگر برادریوں کا ہے جو عام طور سے ہریانوی زبان بولتے ہیں۔ اختیارات کی لاہور سے بہاولپور منتقلی اورعدم مرکزیت کا فائدہ صرف سرائیکی آبادی کو نہیں بلکہ اس خطّہ میں مقیم تمام لوگوں کو ہوگا۔ پنجاب صوبہ کی ایک تہائی آبادی جنوبی اضلاع میں رہتی ہے۔ ان اضلاع کا ملکی دولت پیدا کرنے میںاہم کردار ہے۔ یہ خطّہ وافر ‘ فاضل مقدار میں گندم پیدا کرتا ہے جس سے وسطی‘ شمالی پنجاب‘ خیبر پختونخواہ اور افغانستان کی گندم کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ یہی خطّہ کپاس کا سفید سونا پیدا کرتا ہے۔ یہاں کی آب و ہوا کپاس کی کاشت کیلیے سازگار ہے۔ کپاس کی فصل نے پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو فروغ دیا ۔ ملکی برآمدات کاتقریباً ساٹھ فیصد ٹیکسٹائل پر مبنی ہے۔ دہائیوں تک جنوبی پنجاب کے کاشتکاروں سے سستی کپاس لیکر ملک کے دیگر علاقے ٹیکسٹائل کی صنعت کے ذریعے دولت‘ زرمبادلہ کماتے رہے۔آم کا پھل جس پر پورا پاکستان فخر کرتا ہے وہ بھی جنوبی پنجاب کا میوہ ہے۔ گندم اور کپاس کی صورت میں دولت سرائیکی علاقوں سے ملک کے دیگر علاقوں میں منتقل ہوتی رہی جیسے کسی زمانے میں مشرقی پاکستان کی پٹ سن سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ ملکی معیشت کے استحکام میں اہمیت کا حامل تھا۔ اگر ہمارے حکمران شروع دن سے اس بات کا احساس کرتے اور جنوبی پنجاب کی ترقی کیلیے منصفانہ پالیسیاں اختیار کرتے تو اس خطّہ میں احساسِ محرومی نہ پیدا ہوتا اور شائد الگ صوبہ کا مطالبہ بھی زور نہ پکڑتا۔ جس طرح مسلم لیگ(ن) نے اپنے دور اقتدار میں پنجاب کے فنڈز کا لگ بھگ نصف حصہ لاہور شہر میں جھونک دیا اس سے بھی کم ترقی یافتہ جنوبی اضلاع میں اس بات کا احساس گہرا ہوا کہ انکے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں جنوبی پنجاب کے افراد کا حصہ اُنکی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔یہ بات تعلیم یافتہ متوسط طبقہ کیلیے تکلیف دہ ہے۔ چونکہ تمام صوبائی دفاتر لاہور میں قائم ہیں اسلیے اُوپر سے نیچے تک عملہ کی اکثریت لاہور یا وسطی‘ شمالی پنجاب سے تعلق رکھتی ہے۔ اب بھی صرف الگ سیکرٹریٹ بنانے سے مسلہ حل نہیں ہوگا۔ پنجاب صوبہ کی تمام سرکاری ملازمتوں میں گیارہ جنوبی اضلاع کیلیے آبادی کے تناسب سے کوٹہ مقرر ہونا چاہیے تاکہ وہاں کے رہنے والوں کو روزگار میسر ہو اور اُنکا احساس ِمحرومی دُور ہو۔