وہ سیاہ رنگ کی چمکتی ہوئی طویل دیوار تھی۔ کم و بیش 226 فٹ 19 انچ لمبی۔ پہلی نظر میں دیکھنے پر اس سیاہ دیوار پر کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا‘ ہاں اس کی چمکتی ہوئی سطح پر اپنی ہی شبیہ ابھر آئی۔ جیسے ہم کسی آئینے کے مقابل کھڑے ہوں۔ ذرا سا غور کرنے پر اس دیوار پر لکھے ہوئے نام دکھائی دیتے مگر اس طرح کہ انہیں پڑھنا ممکن نہ تھا۔ یہ ویت نام میموریل وال تھی اور اس پر ویت نام کی جنگ میں مارے جانے والے اٹھاون ہزار امریکی فوجیوں کے نام تحریر تھے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے نیشنل مال پر ویت نا م کی یادگاری دیوار واقع تھی۔ اس نیشنل مال کے مغرب میں لنکن میموریل تھا اور مشرق کی جانب کیپٹل ہل کی مشہور زمانہ سفید گنبد والی عمارت تھی۔ ہم مگر اس وقت ویت نام کی یاد گاری دیوار کے سامنے کھڑے تھے۔ ہماری طویل قامت امریکی گائیڈ اپنے روایتی انداز میں ہمیں سفری رہنمائی فراہم کر رہی تھیں مگر یہاں آ کر ان کا لہجہ سنجیدہ اور اداس ہوگیا۔ کچھ دیر وہ ان امریکیوں کو خراج تحسین پیش کرتی رہیں جو ویت نام کی جنگ میں مارے گئے تھے اور جن کے نام اس دیوار پر تحریر تھے۔ بیس برس کی طویل جنگ کے بعد امریکہ کو ویت نام سے بھاگنا پڑا کیا بطور امریکی آپ کچھ پچھتاوا محسوس کرتے ہیں۔ میرا یہ سوال اس امریکی گائیڈ کے لیے غیر متوقع تھا۔ اس کے چہرے پر حیرانی اور خجالت کی ملی جلی کیفیت ابھری اور بات کا رخ اس نے کسی دوسری طرف موڑ دیا۔ میں نے ایک اور سوال کر دیا۔ ’’بیس کی طویل جنگ میں لاکھوں ویت نامی مارے گئے۔ صرف اسی ہزار تو بچے اس جنگ میں لقمہ اجل تھے۔‘‘ مادام کیا آپ ان کے لیے بھی اداس ہوتی ہیں۔‘‘ مادام نے اس غیر متوقع سخت سوال پر بھی خاموش رہنا پسند کیا اور اپنا رٹا رٹایا سبق دھراتی رہیں۔ عالمی طاقتور وںکے اصل چہرے نہایت ظالم اور سفا ک ہیں۔ایک طرف ملین ڈالرز کے اسلحے بنا کر انسانی تباہی کا سامان تیار کیا جاتا ہے تو دوسری طرف اپنے دست و شفقت تلے انسانی حقوق کی تنظیمیں بنا کر انسانیت کا پرچار کر تے ہیں۔ ایک طرف جنگوں میں سوتے ہوئے معصوم بچوں پر بمباری کرتے ہیں تو دوسری طرف سیو دی چلڈرن اور یونیسف جیسی تنظیموں کا ڈھونک رچاتے ہیں۔ افغانستان پر بیس سال جنگ مسلط کئے رکھی‘ سینکڑوں افغان بچے اس جنگ کا ایندھن بنے۔ امریکی طیاروں نے افغانی بچوں کے سکولوں اور مدرسوں پر بمباری کی۔ قرآن پڑھتے ہوئے ننھے حفاظ کو موت کی نیند سلا دیا۔ ڈیزی کٹر بم‘ بچوں کے کومل جسموں پر برسائے۔ جنگیں مسلط کرنے کے فیصلے بھی خود ہی کئے اور پھر یونیسف اور سیو دی چلڈرن جیسے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے بھی خود بنائے۔ کیا یہ سب ظالمانہ تضاد نہیں۔ جنگ کے شعلے‘ تباہی اور بربادی کو کم سنی میں دیکھنے والے بچے نفسیاتی طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں۔ ان کے روح اور ذہن پر آگ اور بارود کے منظر ناقابل فراموش خراشیں ڈال دیتے ہیں۔ 1972ء میں جب ویت نام جنگ جاری تھی ایک عمارت پر امریکی جنگی طیاروں نے بمباری کی۔ آس پاس کی عمارتیں ہی لرز گئیں۔ ہر طرف آگ کے بلند بانگ شعلے تھے۔ ایک نو سالہ ویت نامی بچی کم پھو بھی ان بچوں میں شامل تھی۔ جنگ کے اس آتش فشاں سے جان بچانے کے لیے بچے کسی محفوظ مقام کی طرف بھاگے۔ آگ کی لپٹیں کم پھو کے فراک کو جلا چکی تھی۔ نو سالہ ویت نامی بچی بغیر کپڑوں کے جھلسے بدن کے ساتھ چیختی چلاتی مدد کے لیے پکارتی بھاگتی جاتی ہے اور اس منظر کو اخبار کا ایک فوٹو گرافر اپنے کیمرے میں قید کر لیتا ہے۔ اگلے روز کم پھو کی یہ تصویر دنیا کے کئی اخباروں پر صفحہ اول پر چھپتی ہے۔ ویتنامی بچی کی یہ تصویر آج بھی اس تکلیف اور درد کا استعارہ ہے جو عالمی طاقتوں کی سلگائی ہوئی جنگوں کی آگ میں معصوم بچوں پرگزرتی ہے۔ کم پھو کا آدھا بدن جل چکا تھا مگر روح پوری جھلس گئی تھی۔ جنگ سے وابستہ‘ وحشت ناک درد کی دلدل جیسی یادوں سے باہر نکلنے میں اسے کئی سال لگے۔ وہ اب 58 برس کی ہے۔ کینیڈا میں رہتی ہے اور وار چلڈرن کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے۔ سفاک اور ظالم عالمی طاقتیں اب فلسطین کے کومل بدن بچوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بناتی ہیں۔ یہ تو تصویروں اور ویڈیوز کا زمانہ ہے۔ آن کی آن میں ان معصوم بچوں کی آہ و بکا دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے۔ احتجاج‘ جلسے‘ ریلیاں‘ مذمتیں جن کے اختیار میں کچھ نہیں وہ بھی کچھ کرسکتے ہیں مگر حیرت ہوتی ہے کہ جن عالمی طاقتوں کے اختیار میں سب کچھ ہے ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ یہ سفاک طاقتیں تڑپتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر حظ اٹھاتی ہے۔ یہ دنیا اس وقت کتنی ظالم اور سفاک محسوس ہوتی ہے جہاں معصوم بچوں کو جنگوں کا ایندھن بنایا جاتا ہے۔ ان کے کومل جسموں پر بم برسائے جاتے ہیں۔ ان کے سکولوں کو تباہ برباد کیا جاتا ہے۔ ان کے ماں باپ ان سے چھینے جاتے ہیں۔ زندگی بچوں کی مسکراہٹ اور بے فکری سے بھری شرارتوں میں نمو پاتی ہے۔ زندگی تبھی خوبصورت لگتی ہے جب بچوں کو ہنستا مسکراتا دیکھیں۔ بچوں کا مستقبل محفوظ ہو۔ وہ امن کی فضا میں سانس لیں۔ انہیں بمباری میں ملبہ ہوئے گھر پر کھڑے چیخ و پکار نہ کرنی پڑے۔ پناہ گزینوں کے خیموں اور سیو دی چلڈرن جیسی تنظیموں کے یتیم خانوں میں پلنے والے یہ وار چلڈرن تمام عمر جنگی وحشت کا یہ بوجھ اپنی روح پر ڈھوتے ہیں۔ سفاک اور ظالم عالمی طاقتیں ان کی مجرم ہیں۔