شیخ رشید نے کہا ہے کہ وہ نومبر میں پاک بھارت جنگ دیکھ رہے ہیں، تشبیہ اور استعارے کی زبان ہے۔ دراصل وہ نومبر میں مولانا فضل الرحمن کا مارچ اور دھرنا دیکھ رہے ہیں۔ وہ اور ان کی حکومت خود کو پاکستان اور اپوزیشن کو بالخصوص مولانا کو بھارت سمجھتی ہے اور بھارت کو پھر کیا سمجھتی ہے؟ وہی جو امریکہ نے سمجھنے کو کہا ہے۔ شیخ جی کو پتہ ہے کہ پاک بھارت جنگ کا ایک فیصد امکان بھی نہیں۔ جنگ نہ ہونے کا ضامن امریکہ ہے۔ وہی امریکہ جس نے کشمیر کے معاملے کو حتمی شکل دلوائی۔ لیکن جملہ فریق ایک بات پر چوک گئے ایک فریق کشمیری عوام تھے‘ انہوں نے مزاحمت کر کے کھنڈت ڈال دی اور اس کھنڈت نے تین دارالحکومتوں میں پریشانی کی لہر دوڑا رکھی ہے اور اس’’لہر‘‘ کے زیر اثر شیخ رشید کو اکتوبر کا دھرنا نومبر کی جنگ نظر آ رہا ہے۔ جنگ نہیں ہو گی ‘ کنٹرول لائن پر لوگوں کی جانیں البتہ جاتی رہیں گی‘ کوئی پلوامہ ڈرامہ ہو گیا تو بالا کوٹ اور پھر جوابی ایکشن کا ری پلے ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد راوی چین لکھتا ہے۔ ویسے بھی جنگ کا میدان شیخ جی کا میدان نہیں ہے کہ لوگ ان کی پیش گوئی پر دھیان دیں۔ ہاں‘ انصاف و احتساب پکڑ دھکڑ کے باب میں ان کی پیش گوئیاں درست ماننی چاہئیں کہ عالم قضا و قدرسے ان کی رسم و راہ ہے۔ اسی کو اجازت سے وہ پیشگی بتا دیتے ہیں۔ کہ کون کب اور کس جرم میں پکڑا جانے والا ہے‘ کون نااہل ہونے والا ہے اور کسے کتنے برس کی سزا ہونے والی ہے۔ شیخ جی اپنی پیش گوئیاں اسی شعبے تک رکھیں تاکہ ساکھ جمی رہے۔ ٭٭٭٭٭ احباب میں ایک صحافی دوست بھی ہیں جو پڑھے لکھے ہونے کے باوجود صحافی ہیں۔ یا یوں کہیے کہ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود صحافی ہیں۔ عمر میں ہم سے چھوٹے ہیں لیکن پڑھا لکھا ہونے کے باعث ہم انہیں خود سے بڑا مانتے ہیں۔ تاریخ پڑھ رکھی ہے۔ مارکسزم مرحوم ہو گیا لیکن یہ مارکسی سوچ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں یعنی اسے مرحوم نہیں ہونے دیا۔ کل ہی ملے تو ملک کی معاشی صورتحال سے مایوس تھے۔ فرمایا بحران بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ کوئی امکان حل ہونے کا نہیں‘ تمام امکانات (خدشات) اس کے بڑھنے ہی کے ہیں۔ لوگ دن بدن روٹی پانی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ پوچھا‘ پھر کیا ہو گا‘ ایسی صورتحال میں انقلاب آ جایا کرتا ہے، بولے تاریخ پڑھی ہوتی‘ کم از کم ماضی قریب ہی کی تو ایسا نہ کہتے۔ انقلاب ہی واحد راستہ نہیں ہوتا‘ انارکی آتے نظر آرہی ہے۔ جو بچا تھا وہ بھی نہیں رہے گا۔ رات بھر ان کی پیشگوئی کا سوچ سوچ کر ڈرتے رہے۔ یہ پڑھے لکھے کی پیشگوئی تھی‘ شیخ جی کی نہیں تھی۔ ٭٭٭٭٭ معاشی صورتحال کا ڈرا دینے والا ذکر ماہر معاشیات حفیظ شیخ بھی کر رہے تھے۔ایک چینل پر انہوں نے کہا کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مالیاتی خسارہ (فسکل ڈیفی سٹ)52فیصد بڑھ گیا ہے اور بے حساب ٹیکس لگا دینے کے باوجود ٹیکس محصولات میں 6فیصد کی ناقابل فہم کمی ہوئی ہے۔ اور ترقیاتی اخراجات پر کٹ لگانے کے باوجود یہ چھ فیصد کمی ہے‘ ورنہ اور زیادہ ہوتی۔ انہوں نے فرمایا‘ میرے حساب میں یہ خسارہ چالیس برس کا ریکارڈ خسارہ ہے۔ اللہ رحم کرے اور وہی یہ عقدہ حل کرے کہ اتنی رقم آخر جا کہاں رہی ہے‘ بجلی گیس کے نرخوں میں اضافے سے حکومت نے کھربوں وصول کئے‘ اربوں کھربوں تیل مہنگا کر کے لئے پھر جی ایس ٹی ساڑھے سترہ فیصد کر دیا اس سے بھی اربوں کھربوں ملے۔ ترقیاتی کام بند کر دیے اربوں اس سے بھی بچ گئے اور نہ جانے کیا کچھ کیا‘ پھر بھی خسارے میں 52فیصد اضافہ ۔اور ہاں بھینسیں بھی تو بیچ دیں۔ یا خدا‘ اتنی رقم گئی کہاں؟ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے اپوزیشن کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے فرمایا کہ میں یوٹرن لے کر وزیر اعظم بن گیا‘ وہ جیلوں میں پہنچ گئے۔ وزیر اعظم کو جو چاہے کہنے کا اختیار ہے لیکن ان کے اس تازہ فرمودے سے خطرہ ہے کہ مطالعہ پاکستان میں درج ان گنت صدق بیانیوں میں ایک اور سچ کا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ کہ یو ٹرن لینے والے بالآخر وزیر اعظم بن جایا کرتے ہیں۔ چنانچہ ریکارڈ کی درستگی کے لئے مختصراً عرض ہے کہ حضور‘ حکومت یوٹرن لینے سے ہی نہیں مل جاتی ۔ یہ تصحیح صرف مطالعہ پاکستان کی درسی کتب کے حوالے سے ہے‘ خاں صاحب برا نہ منائیں۔ وزیر اعظم نے وزیروں کو ہدایت کی ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جائے۔ غالباً ’’مزید‘‘ ریلیف دینے کی بات کی ہو گی۔ عوام کو مزید ریلیف مبارک!